طالبان کی افغانستان میں فتح دنیا کی تاریخ میں تیز ترین فتح ہے۔ اس سے پہلے جو جنگ ہم نے دیکھی وہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تھی۔ قرہباخ کے علاقے کو آذربائیجان نے فتح کیا۔ دو تگڑی فوجیں لڑ رہی تھیں، ڈرونز کا استعمال ہو رہا تھا، بڑی تیز فتوحات تھیں لیکن طالبان کی فتوحات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھیں۔
ایسی فوج جس کے پاس پُرانے ہتھیار تھے اور جس کے پاس فضائی قوت بھی نہ تھی، وہ کیسے فاتح بنی اس پر تو کتابیں لکھی جائیں گی۔ لیکن یہاں جنگ کے دوران طالبان کے وہ چودہ اصول جنہیں دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔
نمبر 1:
ہتھیار ڈالنے والوں کو کہیں بھی قتل نہیں کیا گیا۔ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں تھا کہ کسی نے ہتھیار ڈالے ہوں اور انہیں قتل کیا گیا ہو۔ یہاں تک کے اسماعیل خان نے طالبان کو بہت نقصان پہنچایا تھا، لیکن جب وہ قابو آیا تو اسے بھی جانے دیا۔
نمبر 2:
طالبان نے اس پوری مہم کے دوران کہیں بھی ٹارچر نہیں کیا۔ لوگوں پر تشدد کی کوئی ایک ویڈیو بھی آپ کو دیکھنے کو نہیں ملے گی۔
نمبر 3:
کوئی چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار اس پوری مہم کے دوران کہیں پر رپورٹ نہیں ہوئی۔ عالمی اداروں اور میڈیا میں کہیں بھی اس طرح کی کوئی شکایت نہیں آئی کہ بنک توڑ دیے گے، لوٹ مار شروع ہو گئی، لوگوں کی دکانیں کھول دی گئیں، غلہ اور اناج لوٹ لیا۔۔۔
نمبر 4:
طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا۔یہ بہت اہم اور قابلِ تعریف ہے۔ عام طور پر فوجیں ایسا نہیں کرتیں لیکن طالبان کی فوج جہاں بھی داخل ہوئی وہاں عام معافی کا اعلان کیا گیا۔
نمبر 5:
اگر کسی نے ان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہا، ان کا تعلق کسی بھی فرقے یا گروہ سے تھا اور معاہدے کی صورت میں علاقہ چھوڑنا چاہا تو طالبان نے انہیں نہیں روکا۔ معاہدہ کیا اور انہیں جانے دیا۔ جہاں پر بہت سخت لڑائی ہوئی وہاں بھی انہوں نے معاہدے کیے ۔
نمبر 6:
خواتین سے بدسلوکی کا ایک بھی واقع پورے افغانستان میں اس دوران رپورٹ نہیں ہوا۔ کسی بھی خاتون نے یہ شکایت نہیں کی یا میڈیا نے یہ نہیں دکھایا کہ کسی خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہو، بد تہذیبی کی گئی ہو، زیادتی کی گئی ہو،زبردستی شادی یا نکاح کیا گیا ہو۔۔۔
نمبر7:
لوگوں پر مذہبی حوالے سے اب تک کوئی زور زبردستی نہیں کی۔ داڑھی کسی نے رکھنی ہے رکھے نہیں رکھنی تو نہ رکھے، خواتین بازار میں آ جا رہی ہیں کسی کو نہیں روکا گیا۔ لوگوں کو زبردستی نماز ادا کرنے پر بھی فورس نہیں کیا گیا۔ طالبان نے کہا خواتین سکول پڑھنے اور پڑھانے کے لیے ضرور آئیں، دفاتر میں بھی مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کر سکتی ہیں لیکن پردے میں گھر سے باہر آئیں۔
نمبر 8:
جہاں بھی طالبان گئے وہاں لڑائی کے دوران جو ہوا سو ہوا
لیکن لڑائی کے بعد جب طالبان نے کنٹرول کر لیا تو بازار اور کاروبار کھلے رہے۔ اور اب لوگ بازاروں میں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔
نمبر 9:
صحافیوں، این جی اوز اور غیر ملکیوں کا قتلِ عام نہیں ہوا۔ جو لوگ طالبان کی طرف سے کوریج کر رہے تھے وہ لوگ بتاتے ہیں کہ طالبان نے جنگ میں اپنی جان سے زیادہ ان کو تحفظ دیا ہے۔
نمبر 10:
فرقہ وارانہ واقعات نہیں ہوئے۔ یعنی جو اہل تشیع ہیں ان کے ساتھ بھی معاہدے ہوئے۔ جو بریلوی ہیں ان کے ساتھ بھی معاہدے کیے گئے۔ نسل اور فرقے کا فرق کیے بغیر سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔
نمبر 11:
طالبان نے اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سکول اور تعلیمی اداروں کو فی الفور فنگشنل کیا اور انہیں کھلا رکھا۔
نمبر 12:
سرکاری دفاتر میں کام جاری رکھا۔ انہوں نے اپنے طالبان نگران مقرر ضرور کیے لیکن ملازمین کو اپنا کام جاری رکھنے کو کہا گیا۔
نمبر 13:
املاک ،گاڑیوں اور جائیدادوں کو قبضہ میں نہیں لیا گیا۔ یعنی بازار میں کسی کی دکان، جائیداد، گاڑیوں اور ہتھیاروں کو عام لوگوں سے طالبان نے قبضہ میں نہیں لیا۔ صرف غیر ملکیوں سے اور افغان فوج کا سامان جن سے وہ لڑ رہے تھے چاہے وہ گاڑیاں ہیں یا ہتھیار، ان کو طالبان نے مالِ غنیمت کے طور پر اپنے قبضہ میں لیا۔
نمبر 14:
کسی کو زبردستی اپنے ساتھ لڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
بیس سالہ جنگ کا نتیجہ افغان طالبان کی فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ دنیا کی تیز ترین فتح تھی۔ اور اب پورے افغانستان پر طالبان کی حکمرانی ہے۔ افغانستان کی عوام نے طالبان کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Shares: