پاکستان کے 2018 کے جنرل الیکشن کے چنتخب نتائج جب جب منظر عام پر آگئے سیاست دانوں نے فوراً سے پہلے چنتخب نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جہاں جہاں دیگر سیاستدان نے اس چنتخب نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہاں جمعیت علمائے اسلام اور پی ڈی ایم کے موجودہ سربراہ قائد ابن قائد مولانا فضل الرحمان صاحب نے اس نتائج کو یکسر مسترد کرکے اے پی سی بلائی گئی اسی اے پی سی میں موجودہ حکومت کے اتحادی ایم کیو ایم دیگر اتحادی جماعتیں بھی شریک تھی اور 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو تاریخ کا دھاندلی زدہ انتخابات کہا گیا
اور اسی اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان صاحب نے تمام پارٹیوں کو یہ تجویز بھی دی کہ کوئی بھی پارٹی اپنے منتخب نمائندوں کو اسمبلی میں حلف اٹھانے کے نہ بھیجیں اس تجویز پر اے پی سی میں موجود تمام جماعتوں نے اتفاق کیا سوائے مسلم لیگ ن کے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے حلف اٹھانے کے بعد جن دو پارٹیوں نے مولانا فضل الرحمان صاحب کے تجویز کو رد کیا تھا اتفاق سے دونوں پارٹیاں آج تک پچھتا رہی ہے باقی کوئی پارٹی نہیں پچھتائی کہ ہمیں حلف نہیں اٹھانا چاہیے تھا بلکہ خود اس بات کا اعتراف سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کرچکے ہیں کہ ہم نے غلطی کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کے تجویز پر عمل نہیں کیا چونکہ یہ حکومت جمہوریت اور سیاستدانوں کو بے توقیر کرنے کے لئے لانچ کی گئی تھی عمران حکومت نے نیب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری بہن پریال تالپور شاہ صاحب اور دیگر ہم فکر ساتھی مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی احسن اقبال خواجہ آصف موجودہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ویگر ہم فکر ساتھیوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے بند کیا اور تو اور جن پر نیب کے مقدمات لاگو نہیں ہو سکتے تھے انپر ہیروئن ڈالی گئی جو کہ بعد میں ثابت نہ ہوسکی مریم نواز شریف کے کمرے کا دروازہ توڑ کر چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا
یہ سب کچھ جو کیا گیا کسی کو نیب کے ذریعے گھسیٹنا
کسی پر ہیروئن ڈالنا کسی کے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنا یہ سب سیاست دانوں کی بے توقیری کے لئے کیا گیا تاکہ عام آدمی کی نظر میں سیاستدان بے وقعت ہو جائے عام آدمی کا بھروسہ سیاستدان سے اٹھ جائے
سیاستدانوں کی عزت اور وقار کو بحال کرنے کے لئے اور عام آدمی کو سیاستدانوں کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لئے کہ اس فانی دنیا میں آپ کا غم خوار آپکے دکھ بانٹنے والا سیاست دان ہی ہوسکتا ہے یہ امید دلانے کےلئے مولانا فضل الرحمان صاحب نے ملک گیر 15 ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا ہر ایک ملین مارچ دوسرے سے لاجواب و شاندار تھا جو حکومت اور ریاست کے درد سر سے کم نہ تھا
پھر آخر کار جب جمعیت علمائے اسلام نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اور آزادی مارچ کا پڑاؤ اسلام آباد کو قرار دیا پاکستان کے طول و عرض سے جب قافلے روانہ ہوتے ہیں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب سکھر سے قافلے کی قیادت کرتے ہیں قافلہ سکھر سے چند کلومیٹر سفر کرتا ہے ایمبولینس کی گاڑی آتی مولانا راشدسومرو صاحب خود مائیک پکڑ کر انصار الاسلام کے رضاکاروں کو آواز دیتے ہیں ایمبولینس کو راستہ دو انصار الاسلام کے رضاکار فوراً سے پہلے راستہ بنا لیتے ہیں یہ ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے اسکو لاکھوں کی تعداد میں دیکھا گیا
جب یہی قافلہ دوسروں قافلوں سے ملتا سمندر کا شکل اختیار کرتا ہوا پاکستان کے دل لاہور پہنچتا ہے
ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے جمعیت علمائے اسلام کے پروانے ایک طرف احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں دوسری طرف میٹرو بس سروس چل رہی
یہ ویڈیو قومی چینلز اور سوشل لاکھوں کی تعداد میں دیکھی گئی اسی کیساتھ ساتھ یہ انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بن گئی ہر بندے نے اس احتجاج کو سراہا
یہ قافلہ ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل تھا کراچی سے لیکر اسلام آباد پہنچا کسی قسم کا توڑ پھوڑ نہ کیمرے کی آنکھ نے دیکھا نہ ہی انسان کے آنکھ نے جب قافلہ اپنے منزل مقصود پر پہنچ گیا وہاں 13دن تک دھرنا جاری رہا وہاں غریدہ فاروقی صاحبہ جو صحافی ہے بھی انٹرویوز لینے پہنچ گئی یہ غریدہ فاروقی عمران خان کے دھرنے میں بغیر چادر کے رپورٹنگ کرتی تھی مگر دھرنے کے ماحول نے اسے چادر اوڑھنے پر مجبور کردیا جنکی تصاویر آن دی ریکارڈ ہیں
بلکہ وہاں ایک صحافی رپورٹر رپورٹنگ کررہی تھی کہ تیز ہوا اور بارش کی وجہ سے وہ گیلی ہو رہی تھی تو انصار الاسلام کے رضاکار آگے بڑھیں اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کے سر پر چادر چڑھا یہ منظر بھی میڈیا پر خوب وائرل ہوا اور لوگوں نے سراہا
اب کراچی سے اسلام آباد اور پھر آزادی مارچ دھرنے کے 13 دن گواہی دیتے ہیں کہ مولویوں سے زیادہ پرامن لوگ دنیا میں نہیں پائے جاتے
جب لوگوں نے اس احتجاج کو سراہا تو طالبان بھی تو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے انہوں نے بھی پرامن طور طریقے عمل میں لائے اور پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا نہ قتل غارت گردی دیکھنے کو ملی نہ وہاں پر ابھی عورت کو رپورٹنگ سے منع کیا جارہا ہے نہ ہی داڑھی نہ رکھنے والوں پر سختی کی جارہی ہے نہ ہی بچیوں کو تعلیم سے روکا جارہے بلکہ وہاں عورتیں اپنی اپنی جاب کے لئے بھی جاتے ہوئے نظر آتی ہے

Shares: