عورت کا تعلیم یافتہ ہونا معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے
ایک عورت اگر پڑھی لکھی یے تو اس سے کا پورا گھر، پورا خاندان پڑھ لکھ سکتا ہے لیکن اگر عورت پڑھی لکھی نہیں تو اس کو کوئی پرواہ و دلچسپی نہیں ہوتی اس کے گھر میں کوئی پڑھا لکھا ہے یا نہیں اس کو بس اپنی زندگی گزارنے کی فکر ہوتی ہے باقی اس کے ارد گرد کیا ہوتا ہے اس کو پرواہ نہیں ہوتی عورت کے لیے تعلیم یافتہ ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مرد کے لیے
اس دور جدید میں عورت کے لئے دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے جس سے وہ دور جدید کے تقاضوں کو پورا کر سکے اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقفیت ہو سکے اگر ایک عورت پرھی لکھی ہوتی ہے تو وہ اپنی اولاد کو بھی پڑھا لکھا بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود کو کہا گیا ہے جہاں سے بچہ سب سے پہلے جو لفظ بھی سکتا ہے وہ بھی ماں ہی ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کی زندگی میں جو بھی آتا ہے بھلے وہ اچھا ہے یا برا اس کے پیچھے تربیت کا اثر ہوتا ہے وہ تربیت اس کو بادشاہ بھی بناتی ہے اور گداگر بھی
"”کہتے ہیں نا ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے””
وہ عورت اس کی ماں ہی ہوتی ہے جو اس کی تربیت ایسی کرتی ہے جس سے وہ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے اگر ماں بچے کو شروع سے اچھا راستہ دیکھاتی ہے تو وہ ماں اس بچے کی بہترین خیر خواہ اور بہترین معلمہ ہوتی ہے اگر ہم تاریخ انسانیت کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے جس معاشرے جو بھی پڑھا لکھا ہوتا ہے بھلے وہ مرد ہو یا عورت اس کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کو معاشرے میں اہم مقام دیا جاتا ہے
تعلیم نسواں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث شریف کا مفہوم ہےجو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی(المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۴۴۷)
ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو
آج تعلیم گاہوں اور دینی تعلیمات کے متعدد ذرائع کے موجود ہونے کے باوجود، دینی تعلیم سے بے رغبتی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا ہو اور جس مذہب میں علم وحکمت سے پُرقرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی ”اقرأ“ یعنی تعلیم سے ہوتی ہو، اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اگر بات عورتوں کی مذہبی تعلیم کی، کی جائے (نہ کہ محض عصری ومغربی تعلیم کی) تو معاملہ حد سے تجاوز ہوتا ہوا نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے
تعلیم نسواں معاشرے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی مرد کے لیے مرد اگر گھر سے باہر رہ کر گھر کو سنبھالنے میں لگا رہتا ہے تو عورت گھر کی چاردیواری کے اندر اپنا فرض نبھا رہی ہوتی ہے مرد اگر پیشہ کماتا ہے تو عورت اس کے خاندان کی خدمت کر کے اس کا ساتھ دیتی ہے مرد اگر گرمی سردی میں باہر رہ کر کام کرتا ہے تو عورت گرمی کی تپتی دوپہر ہو یا سردی کی ٹھٹرتی رات ہو اس کے بچوں کو سنبھال رہی ہوتی ہے مرد گھر سے باہر اگر اپنے بچوں پر فخر کر رہا ہوتا ہے تو عورت انہی بچوں کی تربیت کر کے قابل فخر بنا رہی ہوتی ہے ہمارے معاشرے میں اس دور میں تعلیم کا رحجان تو بہت ہے لیکن دینی تعلیم سے ہم دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے