عالمی جنگوں سے پہلے دنیا ملٹی پولر تھی یعنی کہ دنیا میں کوئی اک واحد سپر پاور نہ تھی۔ جیسے ہی دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو یہ ملٹی پولر دنیا بائی پولر بن گئی جس کے نتیجے میں سوویت یونین اور امریکہ دو بڑی طاقتیں نمودار ہوئیں۔ ان دونوں ممالک میں اک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کی جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ کو عرف عام میں سرد جنگ کہا جاتا ہے جو کہ تقریباً 1945 میں شروع ہوئی اور 1991 میں آ کر ختم ہوئی۔ اس سرد جنگ کے دوران ان دونوں ممالک کی سیدھی آپسی تو کوئی جنگ نہ ہوئی لیکن انہوں نے اپنے اپنے حامیوں کو اک دوسرے کے مقابلے میں خوب سپورٹ کیا۔ اس سرد جنگ کے دوران دو بڑی جنگیں ہوئیں جن میں سے ایک میں امریکہ جبکہ دوسری میں سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ پہلی اہم جنگ تو ویتنام کی جنگ تھی جس میں سامراجیت اور اشتراکیت کی بنیاد پر دونوں نے اپنے اپنے حامیوں کی مدد کی۔ شمالی ویتنام کے چین کے ساتھ رابطے کی وجہ سے یہ خطہ اشتراکیت کی طرف مائل تھا جبکہ جنوبی ویتنام کو امریکہ سپورٹ کر رہا تھا تا کہ ان کو بھی اشتراکی نظریات میں نہ ڈھال لیا جائے۔ خیر ویتنام میں اک لمبی جنگ ہوئی جس میں امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب امریکہ سوویت یونین سے اپنی اس شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا اور موقعہ کی تلاش میں تھا کہ سوویت یونین نے اپنے اشتراکیت کے نظام کو بڑھانے کے لیے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں جس سے امریکہ کی جان کو لالے پڑ گئے اور اس نے سوویت یونین کے نظریات کو یہاں سے اکھاڑنے کے لیے مختلف مسلمان ممالک کی مدد حاصل کی جن میں پاکستان، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات سرفہرست تھے۔ خیر ان ممالک نے دل کھول کر امریکہ کی مدد کی جس کے بدلے میں پاکستان کی طرف امداد کے منہ کھول دئیے گئے۔ عرب ممالک خود تو لڑ نہیں سکتے تھے لہذا اس سارے منظر نامے کی زمہ داری پاکستان کو دی گئی۔ پاکستان، افغانستان، سعودی عرب وغیرہ سے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کو یہاں فوجی ٹریننگ دی گئی۔ اوپر سے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی جس نے پاکستان میں اسلامائزیشن کی اک ایسی جزباتی تحریک چلائی جس میں مسلمان آسانی سے پھنس گئے۔ اسلام کے لیے پاکستان میں بہت کام ہوئے۔ نت نئے قوانین متعارف کراۓ گۓ اور حدود آرڈیننس وغیرہ بھی تبھی پاس ہوئے۔ پاکستان اور افغانستان کے ملحقہ بارڈر پر دینی مدارس قائم کیے گئے جن کے لیے فنڈنگ دوسرے ممالک سے آتی تھی۔ خیر قصہ مختصر یہ کہ ان لڑاکا گروہ کو مجاہدین کا نام دیا گیا جن کی گوریلا کارروائیوں کی بدولت سوویت یونین کو یہاں قدم نہ جمانے دئیے گئے۔ وہ سوویت یونین جو 1979 میں افغانستان میں داخل ہوا تھا اسے 1989 میں شکست کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ اس عرصہ کے دوران جب سوویت یونین کی فوجیں یہاں افغانستان میں موجود تھیں ان کی حمایت یافتہ حکومت افغانستان میں قائم رہی۔ اب جب سوویت یونین کی افواج واپس جاچکی تھیں تو اس حکومت کا کوئی حامی نہیں تھا اس لیے لوکل افغان اس حکومت کے درپے ہو گئے۔ اگرچہ سوویت یونین واپس جا کا تھا لیکن پھر بھی اس نے افغانستان میں موجود اپنی حامی حکومت کی مدد جاری رکھی جو کہ غالباً 1989 کے بعد ڈیڑھ دو سال تک ہی قائم رہ سکی اور بعد میں اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس حکومت کے خاتمے کے بعد بھی افغانستان کے حالات سازگار نہیں ہو رہے تھے کیونکہ افغانستان مختلف قبائل پر مشتمل اک ملک ہے جنکی آپسی دشمنی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے۔ اسی کشمکش میں ان مدارس کے طلباء جو کہ سوویت یونین کی جنگ کے دوران قائم کیے گئے تھے ملاں عمر کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے دور دراز کے دیہاتوں میں قابض ہو گئے۔ 1994 میں طالبان اک منظم روپ میں سامنے آئے اور ٹھیک دو سال بعد 1996 میں افغانستان میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ طالبان بنیادی طور پر پشتون قبائل کے لوگوں پر مشتمل اک جماعت ہے جس میں دوسرے قبائل کے لوگ بھی شامل ہیں۔

اس وقت افغانستان میں چار بڑے قبائل ہیں جن میں پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ شامل ہیں۔ وہ طالبان جنہوں نے 1996 میں افغانستان میں حکومت بنائی تھی آہستہ آہستہ انکی حکومت تقریباً 90 فیصد افغانستان پر پھیل گئی سوائے شمال کے علاقے کے۔ طالبان کی اس حکومت کو بین الاقوامی سطح پر کوئی پزیرائی حاصل نہیں ہوئی اور نہ اس کو کسی نے تسلیم کیا سوائے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے۔ وہی امریکہ جن کی خاطر یہ افغان لوگ لڑے تھے اسی نے افغانستان پر پانبدیاں عائد کر دیں لیکن طالبان بھی اپنی حکومت پر بضد رہے یہاں تک کہ 9/11 کا واقعہ رونما ہو گیا۔ اس واقعہ کی زمہ داری سعودی عرب کے اسامہ بن لادن پر عائد کی گئی جو کہ ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ پہلے طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کو دینے کی حامی بھری لیکن پھر انکار کر دیا جس کے نتیجے میں امریکہ نے افغانستان میں وار آن ٹیرر کا اعلان کر دیا۔ لہذا 2001 سے امریکہ نے افغانستان کی زمین پر قدم رکھے جو کہ بیس سال تک بڑھتے چلے گئے۔ اس عرصہ کے دوران امریکہ نے سوویت یونین کی طرح اپنی حمایت یافتہ اک کٹھ پتلی حکومت قائم کیے رکھی جس میں پہلے حامد کرزئی اور اب اشرف غنی نے بطور صدر اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اسی سوویت حکومت کی طرح یہ حکومت بھی عوامی پزیرائی حاصل نہ کر سکی اور بڑے بڑے شہروں تک ہی محدود رہی۔ بیس سال ہزاروں فوجی مروانے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی جب کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا تو 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا اعلان کیا۔ فروری 2020 میں طالبان کو پیس ٹالکس کے لیے راضی کرنے کے لیے پاکستان، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور اک معاہدہ کیا گیا کہ اب یہاں سے امریکہ اپنی افواج کو نکال لے گا تاکہ آپ لوگ افغان حکومت کے ساتھ ملکر اک حکومت بنا لو۔ صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد اس امریکی انخلاء میں اچانک تیزی آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بگرام ایئر بیس کو بھی خالی کر دیا گیا جبکہ باقی تھوڑے امریکی فوجی افغانستان میں واپس بچے ہیں۔ افغانستان میں اک بار پھر وہی خلا پیدا کر دیا گیا ہے جو کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد پیدا ہوا تھا۔ تب سوویت یونین کی حمایت کے باوجود افغانستان کی حکومت بمشکل تھوڑا عرصہ نکال پائی تھی لیکن اب کی بار تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ اب تو امریکہ کو بھی افغانستان سے کوئی خاص سروکار نہیں اگر ہوتا تو ایسے اچانک تو یہاں سے نہ نکلتا۔ اب افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے اڈے مانگ رہا۔۔ اگر اتنی ہی ضرورت تھی تو پھر افغانستان سے نکل کر گیا ہی کیوں؟۔ اب دوسرے ممالک سے یہ کہہ رہا کہ ہمیں جگہ دو تا کہ ہم ان طالبان پر نظر رکھ سکیں اور عام لوگوں کی حفاظت کر سکیں۔

اب آجائیں امریکی انخلاء کے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان پر مضمرات کی طرف۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب افغانستان میں سول وار شروع ہوئی تھی تو افغانستان سے لاکھوں مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ تب کے پاکستانی حکمرانوں کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان پر کتنا بڑا بوجھ ڈال کر جارہے ہیں۔ تب امداد کی مد میں خزانوں کے منہ پاکستان کے لیے کھول دئیے گئے تھے جس میں کسی نے ان مجاہدین کے پاکستان میں مستقبل کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ اور وہ مجاہدین جن کو پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے نام پر اپنے اندر سمویا کہ ابھی ان کے ملکی حالات ٹھیک نہیں لہذا یہ کچھ عرصہ یہاں گزار کر جب ملکی حالات ٹھیک ہوں گے واپس چلے جائیں گے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس وہ مجاہدین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پاکستان نے انہیں مسلم برادر سمجھ کر عارضی رہائش گاہ دی لیکن وہ یہاں پکے ہو گئے بلکہ پیچھے سے اوروں کو بھی بلاتے رہے۔ اس کے علاؤہ انکی آپسی لڑائی نے پاکستان کی اکانومی کو جو نقصانات پہنچائے اس کی وجہ سے آج پاکستان کی اکانومی کا یہ حال ہے۔ اوپر سے ان کی پر تشدد کارروائیاں پاکستان میں بھی جاری ہو گئیں جن کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور ہزاروں ہی معزور اور اپاہج ہوئے۔ اب جب امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے تو پاکستان کو بھی اک ڈپلومیٹک طریقہ اختیار کرنا چاہیے نا کہ ماضی کی طرح جزباتی۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ دنیا کا سپر پاور ملک ان جنگی اخراجات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہاں سے نکل رہا ہے تو ہم اک اور جنگ کا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کی آپس میں نہیں بننی اور آخر کار حالات اسی طرف جاتے نظر آرہے ہیں جو کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بنے تھے کیونکہ نہ تو طالبان نے موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرنا اور نہ ہی سب قبائل نے طالبان کو۔ ایک بار پھر طالبان دیہی علاقوں میں ایسے ہی اپنے جھنڈے گاڑ رہے ہیں جیسے 1994 کے بعد گاڑے تھے۔ اس سارے پس منظر میں پاکستان کو افغان بارڈر پر باڑ مکمل کرنی چاہیے اور طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ نارمل سیاسی تعلقات استوار کرنے چاہیے نا کہ جزباتی کیونکہ اب پاکستان مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

Shares: