تنخواہوں میں اضافہ 15 فیصد اور مہنگائی ہزار فیصد،یہ ہے کپتان کا پاکستان،تحریر: نوید شیخ

0
101

تنخواہوں میں اضافہ 15 فیصد اور مہنگائی ہزار فیصد،یہ ہے کپتان کا پاکستان،تحریر: نوید شیخ

سیاست صرف اتفاقات کا نہیں، حکمت کا بھی کھیل ہے۔ مگر اس وقت جو سیاسی صورتحال چل رہی ہے اس میں کپتان حکمت سے عاری دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ہی کھلاڑیوں جانب بھی رخ کرلیا ہے ۔ اب اڑتی اڑتی خبریں آرہی ہیں کہ کپتان کے اپنے کھلاڑی کپتان سے ڈرے ہوئے ہیں ۔ یہ ڈرے ہوئے اس لیے ہیں کہ کپتان نے اپنے ماتحت ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال شروع کردیا ہے اور مقصد صرف ایک ہے کہ پی ٹی آئی کے کھلاڑی کس کس سے ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ اب غلطی سے بھی کوئی کھلاڑی کسی پیپلزپارٹی یا ن لیگ والے سے رابطہ کیا ہو تو اس کی کمبختی لازمی ہے ۔ ۔ اس حوالے سے خبریں یہ بھی ہیں کہ جو کھلاڑی زرا زیادہ ۔۔۔ پر پرزے ۔۔۔ نکال رہے ہیں ان کو شاید کچھ دنوں کے لیے کہیں پھنسا بھی دیا جائے یا اندر کر دیا جائے ۔ جس سے ان کا حکومت کو چھوڑنا مشکل ہوجائے ۔ اور اس سے یہ تاثر بھی زائل ہوجائے گا کہ اس دور میں صرف اپوزیشن ہی نہیں اپنوں کے خلاف بھی کاروائی ہوتی ہے ۔

۔ خاص توجہ کپتان نے جہانگیر خان ترین اور ان کے قریبی ساتھیوں پر رکھی ہوئی ہے ۔ مگر اپوزیشن سمیت ترین صاحب بھی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور یہ اُس اُس زریعے سے آپس میں پیغام رسانی کر رہے ہیں جس کا علم کپتان کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوسکتا ۔ ۔ اصل بات یہ ہے کہ آج سیاست میں جو بھی ہو رہا ہے، یہ نیا نہیں ہے ۔ یہاں لوگ ۔۔ پیٹریاٹ ۔۔ کے نام پر وفاداری تبدیل کر لیتے ہیں اور آج اپوزیشن کی صفوں میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ سب کے مفاد ان کے چہروں پر لکھے ہوئے ہیں۔ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان جو کہا کرتے تھے کہ وہ کبھی ”بلیک میل“ نہیں ہوں گے ۔ اب ہوتے ہیں کہ نہیں ۔ کیونکہ اتحادیوں کی ڈیمانڈز تو سامنے آنا بھی شروع ہوگئی ہیں ۔ یاد رکھیں بھاؤ دیکھانا کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔
اور بھاؤ بتانا کچھ اور ہوتا ہے ۔ اتحادی اس وقت بھاؤ بتا رہے ہیں کہ ہم کو ساتھ رکھنا ہے تو اس کی قیمت یہ ہوگی ؟

۔ پھر یہ بھی طے ہے کہ اتحادی جماعتیں عمران خان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر کسی صورت انتخابی عمل میں نہیں جائیں گی ۔ وقتی طور پر تو حکومت اتحادیوں کی ہر خواہشوں کو پورا کرسکتی ہے ۔ پر پنجاب اور سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور اسکے بعد جنرل الیکشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے ساتھ نتھی رہنا گھاٹے کا سودا ہے ۔ دوسرا ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان کو کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ کرنا کیا ہے ۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل دیکھائی دیتی ہے ۔ جس کی جو مرضی کر لے ۔ ۔ عمران خان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کا نیوٹرل ہونا عمران خان کی مخالفت ہی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ انھیں کوئی خاص مدد نہیں بس ان کا نیوٹرل ہونا ہی چاہیے جو مل رہا ہے۔ اس لیے کھیل تیزی سے چل رہا ہے۔۔ ابھی تحریک انصاف کے حلیف کچھ مجبوریوں کی وجہ سے ان کے ساتھ ہیں جس دن انہیں آزاد کر دیا گیا اور وہ اپنے فیصلے مرضی کرنے سے کرنے لگے سارا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ ۔ ویسے یہ منظر ماضی میں ہم نے دیکھ رکھے ہیں کہ راتوں رات کس طرح لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ الیکشن قریب ہے اس لیے اب نئی صف بندیاں اور نئے اتحاد بنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ۔ پھر اس وقت جس تواتر سے ایک جانب زرداری اور شہباز تو دوسری جانب مریم اور بلاول تحریک عدم اعتماد کے حق میں باتیں کررہے ہیں اور پھر ان کے دیگر پارٹی لیڈران بتا رہے ہیں کہ لانگ مارچ سے پہلے ہی یہ تحریک عدم اعتماد آئے گی ۔ اس سے تو لگنا شروع ہوگیا ہے ۔ کہ مارچ تو بہت دور کہیں کچھ نہ کچھ اس ہی ماہ اور آئندہ چند ہفتوں میں ہہ نہ ہوجائے ۔

۔ سچ یہ ہے کہ لوگ آج بھی بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔۔ بے نظیر کے گن گانے والے بھی ملک میں بہت زیادہ ہیں ۔ ۔ پھر نواز شریف سمیت شریف خاندان کو جیسے عمران خان اور ان کی ٹیم نے قوم کا سب سے بڑا لٹیرا ثابت کرنے میں سارا وقت گذار دیا وہ اب بھی سیاست کے ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر موجود ہے۔۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ بچاؤ کے لیے کپتان زور نہیں لگا رہے ہیں ۔ زور وہ بھی پورا لگا رہے ہیں ۔ جو ان سے بن پا رہا ہے کر رہے ہیں ۔ آپ دیکھیں اب انھوں نے ریاست مدینہ سے ہٹ کر امریکہ کو ٹارگٹ کرلیا ہے اور چین کی خوب تعریفیں کررہے ہیں ۔ وجہ ایک ہے جب ان کو نکالا جائے تو یہ کہہ سکیں کہ ہم کو امریکہ نے نکلوایا ہے ۔ ہم کو چین کو سپورٹ کرنے کی پاداش میں نکلوایا گیا ہے ۔ حالانکہ دنیا کیا پورا پاکستان جانتا ہے کہ چین کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے اس حکومت نے باقاعدہ کوششیں کی ہیں ۔ باقاعدہ محنت کی ہے۔ وہ تو جوبائیڈن نے کپتان کو فون نہیں کیا ورنہ انھوں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ انکا جینا مرنا امریکہ کے ساتھ ہی ہوگا ۔ ۔ پھر عمران خان جہاں اپنے ٹاپ وزیروں کا اعلان کر رہے ہیں تو ساتھ ہی تنخواہوں میں اضافے کی نوید بھی سنا رہے ہیں ۔ آپ دیکھیں پندرہ فیصد تنخواہ بڑھائی ہے، جبکہ مہنگائی ہزار فیصد بڑھی ہے ۔صرف جب بجلی اور گیس کا بل لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے تو جنہوں نے کپتان کو ووٹ ڈالے تھے وہ بھی اپنے گناہوں کو کفارہ کرنے لگتے ہیں ۔ باقی تو دور کی بات ہے ۔۔۔

۔ اس وقت عمران خان کی بہت بری حکومتی کارکردگی اپنی جگہ ۔ مگر ان کی جماعت کی خستہ حالی میں سب سے بڑا حصہ پارٹی کو نظرانداز کرنا بنا ہے ۔ خان صاحب نے اقتدار میں اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور نوجوان کارکنوں سے رابطہ کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ ۔ مگر فیصل واڈا جیسوں کی خاطر خان صاحب نے اپنی ساکھ دائو پر لگائی، نجانے اس کا جواب کون دے گا؟۔ اسی طرح زلفی بخاری جنہیں وزیراعظم عمران خان کا سب سے قریبی سمجھا جاتا تھا انہوں نے گزشتہ ہفتے لندن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قصوروار صرف شہزاد اکبر نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کریں جو وزیراعظم کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے رہے اور وزیراعظم کو یہ بتاتے رہے کہ شہزاد اکبر بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔۔ مزے کی بات ہے کہ زلفی بخاری خود بھی وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے اور لوٹی گئی دولت کو واپس لانے کے یونٹ کے سربراہ تھے۔ ۔ سچ یہ ہے کہ ساڑھے تین برس میں شہزاد اکبر اور ان کے ساتھیوں نے ملکی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات وصول کی ہیں اور چار چار گھنٹوں کی presentations
دی ہیں اور اس کے نتیجہ میں برآمدگی صفر ہے۔ انہیں محض فارغ کرنا نہیں بنتا تھا بلکہ ان پر جو ملکی سرمایہ ضائع ہوا ہے اس کی برآمدگی کرنا چاہیے تھی تاکہ ان تمام افراد تک یہ پیغام جاتا کہ آپ کو بھاری تنخواہیں اور مراعات کام کرنے کے لیے دی جا رہی ہیں نہ کہ عوام اور حکومت کو بے وقوف بنانے کے لیے نوازا جا رہا ہے۔۔ کیونکہ رزلٹ یہ ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کو باہر کی عدالتوں سے کلین چیٹ مل رہی ہے ۔ ۔ بدقسمتی سے عمران خان کا مشاورتی نظام بہت کمزور ہے یا انہیں غلط اطلاعات دی جاتی ہیں۔ جو لیڈر درست اطلاعات حاصل نہ کر سکے ، اچھے اور مخلص مشیر اسے دستیاب نہ ہوں، اس کی سیاسی تباہی میں کیا کسر رہ جائے گی؟۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صفر کو جمع کریں ضرب دیں یا تقسیم کریں نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ معذرت کے ساتھ ٹاپ سے لے کر نیچے تک صفر یہ صفر ہیں ۔ ۔ عمران خان کی ٹیم ابھی تک اپوزیشن کو گالیاں نکالنے کی پالیسی پر ہی عمل کر رہی ہے۔ حا لانکہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی ہے۔ لیکن وہ مزے سے پرانی گالیوں والی فلمیں چلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ کہ اپوزیشن کو گالیاں نکالنے سے مزید کام نہیں چلنا۔

۔ کون ان کو سمجھائے کہ گالیاں تو آپ تین سال سے نکال رہے ہیں ۔اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے آپ کو اپنی سیاسی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ۔ اسی لیے اب لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان کو یا تو سیاسی صورتحال کا ادراک نہیں ہے یا انھوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کہ جو ہونا ہے ہو جائے۔ میں اس کو روک نہیں سکتا۔ اس لیے کوئی بھی کوشش کرنا بیکار ہوگا۔ پھر یہ رائے کہ مولانا فضل الرحمٰن کھیل میں نہیں ہیں۔ درست نہیں ہے۔ وہ کھیل کا centre focus
ہیں، لیکن کھیل کے باقی مہرے سیٹ کیے جا رہے ہیں ۔ مولانا تو پہلے دن سے اس حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر آج عمران خان کو گھر بھیجنے کا کوئی امکان پیدا ہو رہا ہے تو مولانا اس سے دور کیسے رہ سکتے ہیں۔۔ مولانا کی جب انٹری ہوگی تو وہ کھیل کو مزید تیز کر دیں گے۔ اس لیے وہ انتظار میں ہیں کہ سب مہرے نئی جگہ پر سیٹ ہو جائیں تو وہ اپنی انٹری ڈال دیں۔۔ آپ دیکھیں ایک ہفتہ قبل وہ عمران خان جو ملک کا ایک مضبوط حکمران تھا آج صرف تین ملاقاتوں کے نتیجے میں ہی ایک کمزور حکمران بن گیا ہے۔ اور اپوزیشن نے کل تک اگلی باری کی باتیں کرنے والوں کو دن گننے پر لگا دیا گیا ہے۔۔ اب تو ہر کوئی سوال ہی یہ کر رہا ہے کہ عمران خان کب جا رہے ہیں۔ ۔ کب عدم اعتماد آرہی ہے۔ ۔ کتنے دن باقی ہیں۔ ۔ لوگ تو اب شرطیں لگا رہے ہیں کہ مارچ کی پریڈ میں کون بطور وزیر اعظم سلامی لے گا۔
۔ یوں اس تیزی نے تبدیلی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ۔ اس صورتحال میں عمران خان کی جماعت کے اندر بغاوت ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر گر وہ بندی پہلے ہی ہے۔ لیکن اگر یہ ماحول چند دن اور جاری رہتا ہے تو عمران خان کے لیے تحریک انصاف کو قابو رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ ان کی اپنی جماعت میں ناراض لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس لیے عمران خان نے اگر بروقت اس صورتحال کو ٹھیک نہیں کیا تو تحریک انصا ف کے بھی ٹکڑے ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

۔ عمران خان کو ایک بات سمجھنا ہوگی کہ ان کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے ۔ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے، گیندیں کم اور اسکور زیادہ ہے۔ ایسے وقت میں ٹپ ٹپ کر کے گیندیں گذارنے سے میچ نہیں جیتا جاسکتا۔ کپتان کو چاہیے کہ کم ازکم تماشائیوں کو یہ کہنے کا موقع تو دیں کہ کیا خوب اننگز کھیلی ہے۔

Leave a reply