طارق عزیز شو بز اور ادب کی دنیا کا لیجنڈ بقلم:محمد نعیم شہزاد

طارق عزیز شو بز اور ادب کی دنیا کا لیجنڈ
محمد نعیم شہزاد

"ابتدا ہے رب جلیل کے نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے”
زمانہ طالب علمی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر کیے جانے والے سوال و جواب کے انعامی شو نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ جالندھر کی آرائیں گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ ان کے والد میاں عبد العزیز پاکستانی 1947 میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ ان کی پاکستان سے والہانہ محبت اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے سے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتے تھے۔آپ نے اپنا بچپن ساہیوال 142/9L میں گزارا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی مایہ ناز صداکاری کے لیے بہت عروج پایا اور یہی وجہ تھی کہ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز ہی پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔ تاہم 1975 میں شروع کیے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔

طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت کے حامل اور صاحب کمال تھے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967 ) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔

انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا 1970 کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں ان کافعال کردار تھا۔ بعدازاں وہ اپنی پی ٹی وی اور فلم کی مصروفیات کے باعث سیاست کو وقت نہ دے سکے۔ بھٹو کے وارثان و قائمقامان کی سیاست سے دل برداشتہ ہو گئے اور پی پی پی سے اپنی وابستگی ختم کر دی۔ بعدازاں میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور 1997ء میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ وسیع مطالعہ والے اور صاحب قرطاس ہیں
ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ’’داستان‘‘ کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔

نمونہ کلام: پنجابی غزل

گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے
میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے

نمونہ کلام از اردو شاعری: آزاد نظم سے اقتباس

دوست یہ تو کی ہے تو نے بچوں کی سی بات
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید
اس میں دل پر گہرے درد کا بھالا کھانا پڑتا ہے
ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کے بن میں جانا پڑتا ہے
تنہائی میں عفریتوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے
خوشبوگھر کے دروازوں پر کالے راس رچاتے ہیں
جو بھی واں سے گزرے اس کو اپنے پاس بلاتے ہیں
زہر بھری پھنکار سے اس کے جی کو خوب ڈراتے ہیں
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید

طارق عزیز مسحور کن شخصیت کے مالک تھے اور ناظرین و حاضرین کو اپنی گفتگو کے سحر میں لینے کا ملکہ رکھتے تھے۔ پی ٹی وی کراچی کے سابق جی ایم قاسم جلالی نے طارق عزیز کی بحیثیت پروگرام کمپئیر فنی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔

"ان دنوں جبکہ پروگرام ریکارڈ کرنے کی بجائے براہ راست چلائے جاتے تھے،طارق عزیز کو سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔پروگرام شروع کرنے کے بعد کسی اداکار یا کردار نے آنا ہوتا تھا اور اسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تو طارق عزیز دیکھنے والوں کو اپنی ایسی باتوں میں لگا لیتے کہ تاخیر محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ، یوں تاخیر کا عرصہ کمال خوبی سے ازخود نکل جاتا تھا۔”

علم و ادب اور فن اداکاری و صداکاری کی عہد ساز شخصیت 84 برس کی عمر میں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی اور اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا۔

Comments are closed.