وقت نے ثابت کر دیا کہ کرپٹ نظام کو جب تک جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا جاتا پاکستان مصائب کی دلدل سے نہیں نکل پائے گا۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آج تک اپنا نجات دہندہ آئین پاکستان کے حقیقی نفاذ کے بجائے کرپٹ عناصر میں ہی تلاش کر رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ عوام قاتلوں، لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں، منی لانڈرنگ کرنے والوں، بھتہ مافیا، قبضہ مافیا اور کرپشن کے شہنشاہوں میں ہی اپنا مسیحا تلاش کرنے پر بضد ہے۔ عوام کی بیوقوفی کا یہ عالم ہے کہ مسئلہ کشمیر پہ سالہاسال سے نعروں اور درحقیقت کشمیر کیس کو کمزور سے کمزور ترین کر دینے والے کرپشن کے دلدادہ سرمایہ دار وڈیرے حکمرانوں سے ابھی تک امیدِ خیر لگائے بیٹھے ہیں جن کا بزنس، جائیداد اولاد سب تو بیرون ملک ہیں بس کرپشن کا بازار گرم رکھنے کیلئے اقتدار کے ایوانوں پہ قابض رہنا اپنے اور اپنی اولاد کیلئے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ جو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے نہتے پر امن شہریوں تک پہ ظلم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتے اُن سے کیسے امید رکھی جا سکتی ہے کہ کشمیر میں بلکتے بچوں، تار تار چادر لیے سسکتی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی فریاد کوئی خاص اہمیت رکھتی ہو گی۔ بینظیر، نواز شریف، مشرف، زرداری، عمران کے ادوار کو ہی لے لیں کوئی ایک حکمران ایسا نہیں آیا جس نے اقتدار سے ہٹ کے عوامی مسائل کا سوچا ہو۔ ایسے میں اگر کسی نے آئین کے حقوق کی پُر امن آواز بلند کی، بزور کچلنے کیلئے ریاستی محافظوں کو ہی دہشتگرد بنا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ماڈل ٹاؤن ہو یا انقلاب مارچ کیلئے نکلنے والے پُر امن قافلوں کا احوال یا 30، 31 اگست 2014 کی درمیانی رات ہر جگہ بربریت کی اِک نئی داستان رقم کی گئی۔ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، پریزیڈنٹ ہاؤس اور اردگرد کی عمارتوں کے درو دیوار گواہ ہیں کہ کس طرح اقتدار کے نشے میں بدمست نواز شریف اینڈ کمپنی نے ماڈل ٹاؤن میں ناحق قتل ہونے والے چودہ معصوم لوگوں کا انصاف مانگنے والے پُرامن ہزار ہا مرد و زن کو وزیراعظم ہاؤس کے سامنے سڑکوں پہ نشان عبرت بنا کر فرعون، نمرود، یزید تک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ تاریخ گواہ رہے گی جیسے فرعون نمرود یزید رہتی دنیا کیلئے نشان عبرت بن گئے ویسے ہی سلاخوں کے پیچھے وی آئی پی پروٹوکول انجوائے کرنے والے سابقہ حکمرانوں کیلئے کڑی سزا لکھی جا چکی ہے۔ اسی دنیا میں وہ آنے والوں کیلئے نشان عبرت بنیں گے۔
اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو وہاں بھی بھیانک قسم کے کھیل دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کس طرح بے دردی سے پاکستان کی عزت و آبرو اور وقار کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے قدم مضبوطی سے جما کر سیاست دانوں سمیت دیگر ملکی اداروں کے اختیارات میں ناجائز طریقے سے مداخلت شروع کردی۔ نتیجتاً ملکی ادارے اتنے کمزور ہوگئے کہ ان کو یا تو گروی رکھوا کر قرض لے لیا گیا یا پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیے گئے۔ جس ملک کے ادارے کسی دوسرے ملک کے پاس گروی ہوں اس ملک کا عالمی برادری میں کیا وقار رہ جاتا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی افسران و ججز کو زمینیں الاٹ کی جاتی رہیں جو آج ایک روایت بن چکی ہے۔ قانوناً ہر ادارے کے ملازمین برابر حقوق رکھتے ہیں مگر یہ انفرادیت صرف اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں رکھ کر ملک کا خوب دیوالیہ نکالا ہے۔
میرے وطن عزیز میں بسنے والے پیارے پاکستانی ہمیشہ سے سبز باغ دکھانے والوں کی مکاریوں کے جھانسے میں آکر لٹتے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم نسل در نسل اسٹیبلشمنٹ کے غلام بن گئے ہیں۔ اب چاہتے ہوئے بھی موجودہ فرسودہ، استحصالی، کرپٹ، دھن، دھونس اور بدمعاشی پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا ممکن نظر نہیں آتا