22-مئی 1545 ، یوم وفات شیر شاہ سوری اور سید والا ننکانہ۔۔۔۔(خاص تحریر، علی عمران شاھین)

22 مئی کو بی بی سی اردو نے ہندوستان کے ایک مایہ ناز حکمران شیر شاہ سوری (اصل نام فرید خان)کے تذکرے پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون شائع کیا۔حیرت انگیز طور پر اس تحریر میں ان کے بے شمار عظیم کارناموں کا ذکر کرنے کے بجائے ان کی مغلوں سے سر پھٹول کو چھیڑے رکھا یا پھر غیر متعلقہ باتیں زیادہ زیر بحث لائیں۔

سچ یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے جیسے بھی حکومت حاصل کی لیکن انہوں نے نااہل ہمایوں کو باہر نکال کر صرف پانچ سال کے عرصے میں ہندوستان میں ترقی و تمدن اور اسلام سے الفت و محبت کا وہ جال بچھایا یا جو ان کے بعد آنے والے انگریزوں یا پھر کسی دوسرے حکمران کے حصے میں میں ذرا برابر بھی نہیں آسکا۔

یہ تو صحیح ہے کہ انہوں نے مغل بادشاہ شاہ ہمایوں کو ہی شکست دے کر کرحکو مت حاصل کی تھی لیکن مختصر ترین دور حکومت گزارنے والے شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں جو نقوش چھوڑے وہ آج تک قائم اور باقی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک جو سڑک جرنیلی شاہراہ (موجودہ جی ٹی روڈ) تعمیر کی تھی وہ آج بھی کروڑوں لوگوں کے روزانہ استعمال میں ہے۔ انہوں نے اس پرمسافروں کے بے شمارسرائیں تعمیر کیں،وہاں انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ان کے جانوروں کے لئے بھی خوراک اور کھانے پینے،ٹھرنے، نماز کے لیے ہر جگہ مساجد اور مکمل تحفظ تک کے ایسے انتظامات کیے جن کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی،

اس زمانے میں انہوں نے سڑکوں کی چوڑائی دو سو بیس اور ایک سو دس فٹ رکھی، فاصلے ماپنے کے لیے کوس مینار بنائے ،اسی سڑک پر ڈاک کا جو نظام شکیل دیا وہ اتنا سبک رفتار تھا کہ آج کی دنیا میں بھی اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ساری سڑکوں پر سائے کے لئے پھل دار درخت لگائے،ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں پورے ہندوستان میں اس قدر امن و امان تھا کہ کہیں سے بھی چوری اور ڈاکے کی کوئی خبر نہیں ملتی تھی۔

انہوں نے پہلی مرتبہ باقاعدہ ہسپتال بنائے اور وہاں طبی عملے کی تعیناتی کی، دینی و عصری تعلیم کے ادارے قائم کئے۔ غربا و مساکین کی فلاح کا وظائف سے انتظام کیا ۔انہوں نے روپیہ کے نام سے کرنسی تشکیل دیں جو اس وقت دنیا کے آٹھ ملکوں کی کرنسی ہے تو دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی بھی یہی کرنسی ہے۔شیر شاہ سوری نے آج سے پونے چھ سو سال پہلے پورے ہندوستان کی زمینوں کو ایک ایک انچ کے حساب سے پیدائش کرکے نمبر لگائے، چھوٹے بڑےراستوں کی تشکیل کی اور زمینوں کی ہر طرح سے مکمل درجہ بندی اور تقسیم کی۔

آج بھی ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ان کا ہی زمینی تقسیم و درجہ بندی کا نظام چل رہا ہے ۔وہ اپنی اس با کمال حکومت کے ساتھ ساتھ مسلسل جنگیں بھی لڑتے رہے،ان کی کی دنیا سے سے رخصتی بھی ایک جنگ کے دوران لگنے والے جان لیوا زخم کے نتیجے میں ہوئی۔جب وہ اس دار فانی سے کوچ کر رہے تھے تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میری زندگی کی سب سے بڑا حسرت یہ تھی کہ میں سرزمین ہندوستان جسے محفوظ بنا چکا ہوں،کے بعد مکہ مکرمہ تک ایک ایسا محفوظ راستہ بنا دوں جس پر یہاں کے مسلمان چل کر حج اور عمرہ ادا کرنےپرامن طور پر پہنچ سکیں۔اس لیے انھوں نے سمندر میں میں مضبوط پل کی شکل میں پلیٹ فارم بنانے کی منصوبہ بندی سوچی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہرطرح کی حفاظت کے ساتھ عازمین حج و عمرہ کشتیوں کے پر خطر سفر سے بھی نجات پا سکیں۔

شیر شاہ سوری کے قائم کردہ انتظامی ڈھانچے پر ہی بعد میں باقی مغلوں نے جیسی تیسی حکومت چلائی اور جب انگریز آیا تو تب سے اب تک نظام وہی ہے۔

حالیہ رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں جب مجھے ضلع ننکانہ کے علاقہ سید والا میں جانا ہوا تو وہاں دوستوں نے بتایا کہ یہاں دریائے راوی کے کنارے اسی شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ ایک قلعے کے آثار موجود جنہیں دیکھنے کے لئے لیے وہاں جانا ہوا۔

شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ مقامی آبادی سے باہر بنایا تھا اور اس کی بارہ برجیوں بنائی گئی تھی لیکن اب اس کے آثار میں سے صرف ایک برجی ہی بچی ہے۔اس برجی کی چوٹی پر نصب کلس بالکل الگ تھلگ دکھائی دیا تو میں نے پوچھا کہ یہ تو اس کے ساتھ کا نہیں لگتا، یہ کب اور کس نے لگایا تواس پر مقامی دوستوں نے بتایا کہ کہ چند سال پہلے یہاں بھارت سے آئے ہوئے سکھوں نے اپنے ساتھ مقامی انتظامیہ سے بھاری سکیورٹی لی اور یہاں آکر انہوں نے برجی پر نصب پرانی کلس اتاری اور یہ سٹیل کا کلس نصب کردیا۔ان کے اس عمل کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ کلس سونے کا تھا اور مقامی آبادی یا انتظامیہ نے اس پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا لیکن جنہیں جنہیں علم ہوا وہ یہ اڑا لے گئے اور یوں ہم دیکھتے رہ گئے۔

ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں، کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ شیر شاہ سوری نے صرف پانچ سالہ دور حکومت میں اتنے وسائل کہاں سے اور کیسے جمع کیے اور کیسے اتنی ترقی و ترویج کے ساتھ منظم حکومت کرکے دکھا دی۔ سچ یہی ہے کہ بات نیت کی ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو ساری مرادیں پوری ہوجاتی ہیں۔

Comments are closed.