پاکستان میں‌ فلم انڈسٹری کو برقراررہنے کیلئے کم سے کم 100 فلمیں چاہیں ہوتی ہیں‌۔چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید

اسلام آباد :پاکستان میں‌ فلم انڈسٹری کو برقراررہنے کیلئے کم سے کم 100 فلمیں چاہیں ہوتی ہیں‌،اطلاعات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس میں معلومات تک رسائی ترمیمی بل 2021 پر بحث محرک بل کی عدم موجودگی کے باعث موخر کر دی گئی۔

سیکرٹری وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وزارت کے زیر انتظام 18 ادارے کام کر رہے ہیں جس میں کارپوریشنز بھی شامل ہیں۔سیکرٹری نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ اس وقت شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈکاسٹنگ کمپنی (ایس آر بی سی) کے پاس اس وقت 5 ٹی وی چینلز ہیں جس میں ایک ٹی وی چینل (اے ٹی وی) چل رہا ہے اور8 ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں۔ بہت جلد ایس آربی سی کا ٹی آر ٹی اور الجزیرہ کی طرز پر ایک انگلش چینل کی لانچنگ کرنے والے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2008 سے 2018 تک پی ٹی وی میں تقریبا 2200 لوگوں کو ڈیلی ویجزپربھرتی کرنے کرکے مستقل کیا گیا جس کی وجہ سے 32 کروڑ روپے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ بھرتی کئے گئے 2200 میں سے40 کو بھی کام صحیح نہیں آتا۔ مستقبل کی پالیسی کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے بتایا کہ پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی سپورٹس کو پبلک،پرائیویٹ پارٹنرشپ بنانے جارہے ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ہاں بچوں کیلئے کارٹون ہندی میں ڈب ہوتے ہیں ضروری ہے کہ بچوں کیلئے کارٹون اردو میں ڈب کئے جائیں۔

وفاقی وزیر فوادچودھری نے بریفنگ دیتے ہوئے مزید بتایا کہ 14 اگست کو پی ٹی وی نیوز کو مکمل ایچ ڈی میں تبدیل کرر ہے ہیں۔اس کے علاوہ پی ٹی وی سپورٹس کو بھی کچھ مہینوں میں ایچ ڈی کردیں گے۔14 اگست کو ریڈیو بھی ڈیجیٹیلائز کردیا جائے گا۔

اے پی پی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس وقت اے پی پی میں 922 ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں صحافی صرف 300۔400 ہیں اور باقی سارے انتظامیہ کے لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دان ہر پولنگ ا سٹیشن سے لوگوں کو بھرتی کراتے ہیں لیکن حد سے زیادہ بھرتیاں کرنے سے اداروں کے زوال پذیر ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی اے پی پی کو بھی ڈیجیٹلائز کرکے اے ایف پی اور روٹرز کی طرز پر نیوز ایجنسی بنائیں گے۔11 جگہوں پر اے پی پی کو سٹوڈیو دینے جا رہے ہیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال اٹھاتے ہوئے وفاقی وزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی کی طرف جانے سے لوگوں کے بے روزگار ہونے کا بھی خطرہ ہوگا وہ لوگ کدھر جائیں گے؟۔

وفاقی وزیر فواد چودھری نے کمیٹی کو بتایا کہ برطانیہ کی ایک کمپنی کے ساتھ پارٹنرشپ کے ذریعے پاک۔چائنہ فرینڈشپ سنٹر کو ٹیکنالوجی زون بنا رہے ہیں جس میں مختلف کورسز آفر کئے جائیں گے۔سان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا میں اپنا سافٹ امیج قائم رکھنے کیلئے بہت کم خرچ کر رہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 70 ہزار لوگ شہید ہوئے لیکن کیا باہر ممالک میں اس پر کوئی ایک بھی فلم بنائی گئی ہے، کوئی ایک کتاب لکھی گئی ہے؟۔ اس کے برعکس سعودی عرب، یو اے ای، بنگلہ دیش، سری لنکا میں بھارت کے پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ہمیں دنیا میں اپنا سافٹ امیج قائم کرنے کیلئے مثبت پالیسی بنانی چاہئے۔

فواد چودھری نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں سینما بند ہے۔1971 تک سینیما میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر تھا ہمیں شاعری، فلم، ڈرامہ، سینیما کی بحالی کیلئے مل کر اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ فلم انڈسٹری کو برقرار رہنے کیلئے کم سے کم 100 فلمیں چاہئے ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں سال میں صرف 24 فلمیں بنتی ہیں جبکہ اس کے برعکس بالی وڈ میں 1800 فلمیں بنتی ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی سے فلموں اور ایڈورٹائزنگ پالیسی پر رائے مانگی جاسکتی ہے-

پریس کلب کی ریگولیٹری باڈی سے متعلق بھی رائے طلب کی جاسکتی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی درخواست پر قائمہ کمیٹی کی رضامندی سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے ا ین سی او سی کو ایس او پیزکے ساتھ ملک بھر میں سینما گھر کھولنے کی سفارش کر دی۔

سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کو بحال کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس بجٹ، افرادی قوت اور آئیڈیاز کی کمی ہے۔انہوں نے وزارت کومفید مشورے دینے کیلئے ماہرین پر مشتمل ایک موثر گروپ بنانے کی تجویز پیش کی۔وفاقی وزیر نے کمیٹی کی اگلی میٹنگ کراچی میں کرنے کی تجویز دی۔انہوں نے کہا کہ اگلی میٹنگ میں پروڈیوسر ایسوسی ایشنز کو بلا کر فلم پالیسی پر بریفنگ رکھیں جس سے تمام اراکین نے اتفاق کیا۔

وفاقی وزیرنے مزید بتایا کہ ڈیجیٹل میڈیا ونگ کو اے پی پی میں ضم کرنے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں میڈیا پر عالمی سیاست پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں میڈیا پر بھی بات نہیں ہوتی ہمیں یہ رجحان تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیبل کو ڈیجٹلائز کر دیا ہے کابینہ نے پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ کیبل کو اینا لاگ سے ڈیجیٹل پر منتقل کررہے ہیں جس سے چینل ریٹنگ میں شفافیت آئے گی۔انہوں نے بتایا کہ 2 کروڑ 40 لاکھ ہاوس ہولڈٹی وی دیکھتے ہیں۔ ایجوکیشنل چینل پر لینڈنگ رائٹس فیس کو زیرو کر دیا ہے۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انکا مزید کہنا تھا کہ کیبل آپریٹر کو اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ مواد خرید کر چلا سکے گا۔ پاکستان براڈ کاسٹرز کارپوریشن ایک ارب کی پنشن کے بقایاجات ہیں۔ پی بی سی اور ریڈیو کی اربوں کی پراپرٹی کو استعمال میں لانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نیشنل پریس ٹرسٹ کی بلڈنگز بینکوں کے قبضے میں ہیں سرکاری اراضی سے قبضے واگزار کرانے کیلئے قانون لا رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کی نااہلی چھپانے کیلئے عوام پر مزید ٹیکس نہیں لگا سکتے۔

ایڈورٹائزنگ پالیسی پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایڈورٹائزنگ پالیسی مکمل کر لی ہے اسے کابینہ میں لیکر جارہے ہیں۔ ایڈورٹائزنگ پالیسی میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ گوگل اور فیس بک پر ایک سال میں 8 ارب کی ایڈورٹائزنگ ہوئی ہے۔

پرنٹ میڈیا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میرے دور وزارت میں پرنٹ میڈیا کو 70 کروڑ روپے دیئے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ پیسے ورکرز کو نہیں دیئے جاتے۔انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل 2021 لے کر آرہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ بل کے مندرجات پر بات چیت کے بعد کمیٹی کو بھی بل پر تفصیلی بریفنگ دے دیں گے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ صحافیوں کو مسائل کا سامنا ہے ان کو کمیٹی میں بلا کر ان کے مسائل سنے اور ان کے مسائل کو الگ سے اجاگر کریں۔کمیٹی میں معلومات تک رسائی ترمیمی بل 2021 کے محرک بل کی عدم دستیابی کے باعث بل کو موخر کردیا گیا۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز عرفان الحق صدیقی، بیرسٹر علی ظفر، عون عباس،انور لال دین،محمد طاہر بزنجوکے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزارت کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
***

Comments are closed.