دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں ان سب میں ایک فرق نمایاں ھوتا ھے اور وہ ھے حکومت اور ریاست کا فرق لیکن اس فرق کا بہت کم لوگوں کو پتہ ھے اور یہ ہماری بد قسمتی ھے کہ پاکستان میں بھی 90 فیصد لوگ اس فرق سے نابلد ھیں۔
آئیے آج ھم حکومت و ریاست کے چند بنیادی نکات اور ان کے درمیان پائے جانے والے فرق پر بات کرتے ھیں۔
کہا جاتا ھے کہ ریاست ھو گی ماں کے جیسی لیکن کبھی یہ نھیں سنا گیا کہ حکومت ھو گی ماں کے جیسی جبکہ اس فقرے کا حکومت و ریاست دونوں سے کلیدی تعلق ھے۔
پاکستان میں حکومت اور ریاست دو الگ الگ پہلو ھیں حکومت کا عمل دخل ریاستی امور کو چلانا ھے۔ یوں سمجھ لیں کہ ریاست زمین کا ایک ایسا ٹکڑا ھے جسے وھاں کے رھنے والے اپنی بقاء کیلئے مقدم رکھتے ھیں۔ جبکہ حکومت ایک ایسے مربوط نظام کا نام ھے جو اس زمین کے ٹکڑے پر نافظ کیا جاتا ھے۔ اسکو یوں سمجھ لیں کہ ریاست کی مثال ایک مسجد جسے وھاں کے رھنے والے اپنے پئے مقدس سمجھتے ھیں اور حکومت وھاں پر موجود متولی کی حیثیت رکھتی ھے یعنی وھاں کے رھائشی مسجد کا نظم و نسق چلانے کیلئے ایک متولی رکھتے ھیں جس کا کام مسجد کے امور کی دیکھ بھال کرنا ھے اب اگر متولی اس مسجد کی دیکھ بھال بہترین انداز میں کر رھا ھے تو اس مسجد میں آنے والے تمام افراد بھی خوش ھوں گے اور اگر متولی وسائل کے باوجود اس مسجد کے امور ٹھیک طرح سے سر انجام نھیں دے رھا تو صاف ظاھر ھے وھاں موجود افراد اس متولی سے مطمین نھیں۔
بالکل اسی طرح کسی بھی ریاست میں حکومت ایک متولی جیسی ھے جسے میں نے آپ نے ھم سب نے یا ھم میں سے اکثریت نے ملکر نامزد کیا یا منتخب کیا تا کہ زمین کے اس ٹکڑے جسے اب ھم بطور ریاست دیکھتے کہتے اور سمجھتے ھیں اسکے امور بہتر انداز میں دیکھے جا سکیں۔
یہاں ایک اور چیز کی بھی وضاحت ھونی چاھئے کہ ریاست میں موجود ھر فرد چاھے وہ ریاستی نظم و نسق چلانے والی حکومت سے خوش ھے یا نھیں لیکن اس پر لازم ھے کہ وہ ریاست سے اپنی وفاداری مقدم رکھے اس پر کوئی چنداں پابندی نھیں کہ وہ ریاستی امور چلانے والی حکومت سے بھی وفادار ھو لیکن اس کا ریاست سے وفادار ھونا لازم و ملزوم ھے کیونکہ اگر ریاستی امور ٹھیک نھیں چل رھے تو قصوروار ریاست نھیں بلکہ ریاستی امور چلانے والی حکومت ھے قصور وار میں اور آپ یا وہ اکثریت ھے جس نے ریاستی امور چلانے کا اختیار حکومت کی صورت میں کسی کے ھاتھ سونپا ھے۔
لیکن یہ پاکستان کا المیہ ھے کہ یہاں ریاست سے وفاداری اب شاذ و نادر ھی رھی ھے جبکہ حکومتی و اپوزیشن سے وفاداری بڑھ چکی ھے جبکہ ھم سب بہت اچھی طرح جانتے ھیں کہ ریاست ھو گی تو ھی یہ حکومتیں ھوں گی جب خدانخواستہ ریاست ھی نہ رھی تو حکومت و اپوزیشن کا کی مقصد باقی رھے گا یا میری اور آپ کی یا ھم میں سے اکثریت کیلئے کیو وجہ باقی رہ جائے گی۔
اسی طرح ریاست کے اندر چلنے والے تمام ادارے ایک محلے کی مسجد سے لیکر افواج تک سب ادارے ذاتی نھیں بلکہ ریاستی ھوتے ھیں اور یہ ریاست کی نمائندگی کرتے ھیں۔ جب آپ اور میں یا ھم میں سے اکثریت اس محلے کی مسجد سے لیکر افواج کے ادارے تک کو گالیاں دیں، برا بھلا کہیں اور یہ بھی جانتے ھوئے کہ ان کا حکومتی یا اپوزیشن کے بیانئے یا حکومت کے سیاسی داؤ پیچ سے کوئی تعلق نھیں تو یاد رکھیں کہ آپ ریاست کے وفادار نھیں ھیں کیونکہ آپ نے حکومتی و اپوزیشن کو ریاست پر نہ صرف مقدم ٹھہرایا بلکہ ریاست کو پس پشت ڈال کر چند سیاسی حکومتی و اپوزیشن کے افراد کو تقویت دی جس کا نقصان بہرحال ریاست کو ھی پہنچے گا۔
لفظ پاکستان صرف ایک لفظ نھیں بلکہ لاکھوں قربانیوں کی لازوال داستان ھے۔ ایک ایسی داستان کہ جس کا ھر ورک اور ھر ورک کا ھر حرف خون میں ڈوبا ھے۔ ایک ایسا خون کہ جس نے میرے لئے آپ کیلئے ھم سب کیلئے جسموں میں رھنے سے زیادہ اس زمیں پر بہنے کو ترجیح دی۔
جی ھاں آج یہی زمیں وہ مسجد ھے کہ جس کو بنانے کیلئے ھمارے آباء و اجداد نے اپنا خون بہایا ھے۔ آج یہ ھمارا فرض ھے کہ ھم اپنے بزرگوں کی دی ھوئی امانت یعنی اس مسجد کہ جس کا نام پاکستان ھے اپنی جان سے بھی زیادہ اسکی حفاظت کریں کیونکہ یہی وہ مقدم ریاست ھے کہ جسکی بنیادوں میں ھمارے آباء و اجداد کا خون شامل ھے۔
تحریر ثمینہ اخلاق
@SmPTI31