براڈ شیٹ کیس: نیب نے برطانوی کمپنی کو 28.7ملین پاؤنڈ ادا کر دیے:اصل کہانی باغی کی زبانی

0
107

اسلام آباد / لندن : نیب نے لندن ہائیکورٹ سے مقدمہ ہارنے کے بعد برطانوی فرم براڈ شیٹ کو 28 اعشاریہ سات ملین پاؤنڈ ادا کر دیے۔

برطانوی ہائیکورٹ نے براڈ شیٹ کی جانب سے حکومت پاکستان اور نیب کے خلاف مقدمے میں شریف فیملی کی ملکیت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے 4 فلیٹس کی اٹیچمنٹ کے خلاف احکامات جاری کر دیے۔

براڈ شیٹ نے درخواست میں 4 اپارٹمنٹس کی اٹیچمنٹ کی استدعا کی تھی جبکہ شریف فیملی کے وکلا نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف، آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو اور دیگر کی پراپرٹیز کا پتہ چلانے کے لیے 1999 میں براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، یہ معاہدہ 2003 میں ختم ہو گیا تھا۔

کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے !

براڈ شیٹ ایل ایل سی ایک برطانوی کمپنی ہے جس نے انگلینڈ میں کرکٹ کھیلنے کے لیے گئی ہوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سامان اور اثاثہ جات کو ضبط کر نے دھمکی دی ہے۔ اس کمپنی کا دعوٰی ہےکہ اس کے پاس اس حوالے سے پہلے ہی عدالت کے احکامات موجود ہیں۔

کمپنی نے یہ بات حکومت پاکستان اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ ایک پرانے قانونی تنازعے کے تناظر میں کہی ہے۔ یہ قانونی تنازعہ کیا ہے؟

2000 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں 200 کے قریب پاکستانی سیاست دانوں، سرکاری اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کے بیرون ممالک اثاثہ جات کی نشاندہی اور چھان بین کے لیے نیب نے براڈ شیٹ ایل ایل سی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ان پاکستانی شخصیات میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری اور سابقہ وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل تھے۔

کمپنی نے یہ کام اپنے خرچے پر کرنا تھا اور اس کے بدلے میں اسے مطلوبہ افراد سے بازیاب ہونے والی رقم کا 20 فیصد بطور معاوضہ ملنا تھا۔

لیکن 2003 میں نیب نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو ختم کر دیا۔

 

 

 

عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کو حکم دیا کہ وہ کمپنی کو 21 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے

2008 میں نیب نے جیری جیمز نامی ایک شخص سے سمجھوتا کیا کہ اس کا براڈ شیٹ ایل ایل سی سے معاہدہ باقی نہیں رہا۔جیری جمیز مبینہ طور پر براڈ شیٹ ایل ایل سی کا مالک تھا۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں نیب نے اس کو پانچ ملین ڈالر ادا کئے۔ وہ براڈ شیٹ ایل ایل سی کے ابتدائی مالکان میں شامل تھا مگر بعد میں اس نے اسی نام سے امریکا میں ایک اور کمپنی بنا لی تھی۔ 2011 میں اس کا انتقال ہو گیا۔

اسی دوران براڈ شیٹ ایل ایل سی نے ایک بین الاقوامی ثالثی عدالت میں نیب کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔

اگست 2016 میں اس عدالت نے براڈ شیٹ ایل ایل سی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جیری جیمز کو کمپنی کی طرف سے کوئی معاہدہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

جولائی 2018 میں بین الاقوامی ثالثی عدالت نے نیب کی جانب سے کیس لڑنے والی لا فرم ایلن اینڈ اووری کے دفتر میں چار دن تک فریقین کے دلائل سنے۔

دسمبر 2018 میں عدالت نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستانی حکومت کو 21 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کے احکامات دیئے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو کمپنی کو واجب الادا رقم پر سود کی مد میں روزانہ پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ رقم بھی ادا کرنی ہو گی۔

 

 

براڈ شیٹ ایل ایل سی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی عمارت بھی ضبط کرنا چاہتی ہے

لا فرم ایلن اینڈ اووری نے یہ کیس لڑنے کے لیے حکومت پاکستان سے دو اقساط میں 13.5 ملین پاونڈ وصول کیے تھے۔

ابھی تک اس مقدمے کی پیروی کے لیے حکومت پاکستان تقریبا تین ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔

2017 میں پانامہ کیس میں نواز شریف کو ملنے والی سزا کے بعد براڈ شیٹ ایل ایل سی نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان سے بازیاب کی جانے والی رقم کا 20 فیصد نیب کے ساتھ اس کے معاہدے کے تحت اس کو ادا کیا جائے۔

کمپنی کی جانب سے جولائی 2020 میں پاکستانی حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حقیقت میں حکومت پاکستان کی ملکیت ہے لہذا اس ٹیم کو ملنے والے پیسے اور اثاثہ جات کو ضبط کر لینا اب کمپنی کا قانونی حق ہے۔

کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے اس کے خط کا مناسب جواب نہ دیا تو وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام اثاثوں کو اپنے قبضے میں لے لے گی ۔

دیگر پاکستانی اثاثہ جات جن کو براڈ شیٹ ایل ایل سی ضبط کرنا چاہتی ہے ان میں لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی عمارت، لندن میں ہائی کمشنر کا گھر اور نیویارک میں پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل بھی شامل ہیں۔

 

نیویارک میں پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل بھی تحویل میں لینے کا پروگرام شامل تھا 

یاد رہے کہ لندن کی مصالحتی عدالت نے 2018 میں نیب کے خلاف 2 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا اور جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال میں 90 لاکھ ڈالر سود بھی شامل ہوگیا جبکہ مصالحتی عدالت نے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر 30 دسمبر تک ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

نیب کی جانب سے رقم کی عدم ادائیگی پر گزشتہ روز پاکستان ہائی کمیشن کا اکاؤنٹ منجمد ہوا۔

نیب یہ کیس ہاری نہیں بلکہ اس کیس سے کنارہ کشی نے یہ جرمانہ کروایا ہے اوراس رقم میں زیادہ ترسود کی مد میں شامل ہونے والی رقم بھی ہے

Leave a reply