امریکہ افغانستان میں رہ کرجنگ نہیں جیتا،پاکستانی اڈوں سےکیسےجیتےگا؟واشنگٹن پوسٹ میں عمران خان کاکالم

0
77

واشنگٹن :اسلام آباد:’امریکہ افغانستان میں رہ کرجنگ نہیں جیتا،پاکستانی اڈوں سےکیسےجیتےگا؟‘واشنگٹن پوسٹ میں عمران خان کا مضمون ،اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے معروف امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ میں افغانستان، جنوبی ایشیا اورعالمی معاملات سے متعلق اپنا تحقیقاتی مضمون لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان میں فوجی ٹیک اوور کی مخالفت کرے گا اور طالبان پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکے۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک مضمون میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ سے شراکت کے لیے تیار ہے لیکن مزید کسی تنازعے سے دور رہے گا۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک تحریر میں عمران خان نے لکھا ہے کہ پاکستان امن میں امریکہ کا اتحادی بننا چاہتا ہے، جنگ میں نہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ 20 سال میں افغانستان کے اندر رہ کر بھی جنگ نہیں جیت سکا تو پاکستان میں فضائی اڈوں سے کیسے جیتے گا؟

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان امریکہ کو افغانستان پر بمباری کے لیے اپنی سرزمین پر اڈے دینے کو راضی ہوتا ہے تو افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی پھوٹ سکتی ہے جس سے پاکستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر آ جائے گا۔

انہوں نے لکھا: ’ہم یہ بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم نے پہلے ہی اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ ‘

وزیر اعظم نے لکھا کہ: ’جب امریکہ تاریخ کی سب سے طاقتور فوج سے لیس ہونے کے باوجود 20 سال سے زائد عرصے تک افغانستان کے اندر رہ کر جنگ نہیں جیت سکا تو وہ ہمارے ملک کے فضائی اڈوں سے یہ کیسے کرے گا؟‘

ذرائع کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کے یہ خیالات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات میں پیشرفت نہایت سست روی کا شکار ہے اور گیارہ ستمبر کو امریکی فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات ایک ہیں، افغانستان میں سیاسی حل اور استحکام، معاشی ترقی اور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا راستہ روکنا۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’ہم افغانستان میں کسی بھی فوجی ٹیک اوور کی مخالفت کرتے ہیں جو دہائی پر محیط خانہ جنگی کی طرف جائے گا، چونکہ طالبان پورے ملک پر قبضہ نہیں کر سکتے، اور ان کو کسی بھی حکومت کی کامیابی کے لیے اس میں شامل کیا جائے۔‘

عمران خان کے مطابق ’ماضی میں پاکستان نے افغانستان کے متحارب دھڑوں میں سے انتخاب کر کے غلطی کی لیکن اس تجربے سے سیکھا ہے۔ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور کسی بھی ایسی افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے جس کو افغانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کو باہر سے کبھی کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔‘

پاکستان کے وزیراعظم نے لکھا کہ ان کے ملک نے بھی افغانستان میں جنگوں کا نقصان اٹھایا اور 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان گئی جبکہ ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

امریکا کے ساتھ شامل ہونے کے بعد پاکستان کو دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا، امریکی انخلا کے بعد کسی بھی تنازع میں پڑنے سے گریز کریں گے، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر خانہ جنگی بڑھی تو پاکستان پر مزید پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھے گا۔

مضمون میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا امریکا اور پاکستان کے افغانستان میں مشترکہ مفادات ہیں، دونوں ممالک چاہتے ہیں افغاانستان دہشت گردوں کی آمجگاہ نہ بنے، افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ گروپ نہیں، افغان عوام کی حمایت سے بننے والی ہر حکومت کے ساتھ چلیں گے

انہوں نے کہا کہ شہریوں کے کولیٹرل ڈیمج کے نتیجے میں پاک فوج کے خلاف خود کش حملے کیے گئے اور جتنے امریکی فوجی عراق اور افغانستان دونوں میں ہلاک ہوئے اس سے زیادہ پاکستانی فوجی شہید ہوئے جبکہ ہمارے خلاف مزید دہشت گرد گروہوں نے سر اٹھایا، صرف خیبر پختونخوا میں 500 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔

نہوں نے لکھا کہ ‘ہم خانہ جنگی نہیں بات چیت کے ذریعے امن چاہتے ہیں، ہمیں استحکام اور دونوں ممالک کے خلاف دہشت گردی کے خاتمے کی ضرورت ہے، ہم ایسے سمجھوتے کی حمایت کرتے ہیں جو گزشتہ 2 دہائیوں میں افغانستان میں ترقیاتی فوائد کو محفوظ بنائے، ہم معاشی ترقی، تجارت میں اضافے اور وسطی ایشیا میں رابطے چاہتے ہیں تاکہ ہماری معیشت اوپر اٹھے اور اگر مزید خانہ جنگی ہوئی تو ہم نیچے کی جانب چلے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پہلے امریکا اور اس کے بعد افغان حکومت کے ساتھ بہت بھاری سفارتکاری کی، ہم جانتے ہیں اگر طالبان نے عسکری فتح کا اعلان کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام خونریزی ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہم اُمید کرتے ہیں افغان حکومت بھی مذاکرات میں مزید لچک دکھائے گی اور پاکستان پر الزام لگانا بند کرے گی کیوں کہ ہم وہ سب کررہے ہیں جس سے ہم عسکری کارروائی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان، روس، چین اور امریکا کے مشترکہ بیان کا حصہ بنا جس میں قرار دیا گیا کہ اگر کابل پر کوئی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو چاروں ممالک اس کی مخالفت کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مشترکہ بیان میں افغانستان کے چاروں پڑوسی اور اشتراک میں شامل ممالک نے پہلی مرتبہ ایک آواز میں کہا کہ سیاسی تصفیہ کیسا ہونا چاہیے، اس سے خطے میں امن و ترقی کے لیے ایک نیا علاقائی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے جس میں دہشت گردی کے ابھرنے والے خطرات کا تدارک کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا اور خفیہ معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘افغانستان کے ہمسایہ ممالک وعدہ کریں گے کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان یا کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں اور افغانستان بھی خود یہی وعدہ کرے گا۔

مضمون کے اختتام میں انہوں نے لکھا کہ اقتصادی روابط اور علاقائی تجارت کا فروغ افغانستان میں طویل المدتی امن اور سلامتی کے لیے اہم ہے اور مزید عسکری کارروائیاں بیکار ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ ذمہ داری اٹھا لیں تو افغانستان جسے ‘گریٹ گیم’ اور مقامی دشمنیوں کے حوالے سے جانا جاتا تھا وہ علاقائی تعاون کا نمونہ بن سکتا ہے۔

Leave a reply