"وقت” —- عبدالحفیظ چنیوٹی

0
71

گزرا ہوا کل محض آج کی یاد ہے۔ اور آنے والا کل آج کا خواب۔

آج ہم اپنے وقت کی قدر وقیمت پر بات کریں گے،

ہمارا اکثر وقت فضولیات کے کاموں میں گزرتا ہے، جس سے نا ہمیں، ناہم سے جڑے افراد کو اور نا ہی ملک و ملت کو کوئی فائدہ ہوتا ہے،

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی میں، ساعتیں، لمحے، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے… تو گزرنے کے اِس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں۔ ماہ و سال اور صدیاں تو ختم ہوجاتی ہیں، مگر وقت گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ وقت کبھی ختم نہ ہونے والے ایسے سفر کا نام ہے کہ جس کی کوئی منزل نہیں۔

مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لاسکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔

پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔

سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے،

ترجمہ: ’’ فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘

پھر ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی،

ترجمہ:’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے ( اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے ) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘

اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں تمام جہانوں کے مالک نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا،

ترجمہ: ’’ قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے ) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو بُرا کہتے ہیں، تو یہ سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں۔

العصر میں ارشاد ہوتا ہے، ترجمہ: ’’ زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے۔‘‘

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،

ترجمہ : ’’صحت اور فراغت اللہ کی طرف یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نہ کوئی دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت کا سامان۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ ہے،

” ترجمہ”

’’ قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک

(اللہ تعالی کے سامنے)

کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔

زندگی کیسے گزاری۔

جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔

مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔

جسم کو کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

اسی طرح کا ایک حدیث نبویؐ ہے

جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں،

ترجمہ: ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو،

بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔

بیماری سے پہلے صحت کو۔

محتاجی سے پہلے تونگری کو۔

مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔

اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘

اگر ہم اپنی زندگی کے گزرنے والے دنوں کو دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمئن پائیں گے؟ یقینا نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات، کھانے پینے، گھومنے پھرنے، سیر و سیاحت کرنے، ہوٹلنگ کا مزہ چکھنے، فضول گپ شپ کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔

اس لئے سب خصوصاً نوجوانوں کو دعوت ہے کہ اپنے وقت کو بامقصد اور اچھے کاموں، لوگوں کی مدد، خود کو وقت دینا، اور اپنے ہر گزرتے لمحے کو دین اسلام، اپنے سے جڑے افراد کی بہتری و پاکستان کی ترقی کیلئے استعمال میں لائیں۔

Leave a reply