تنگ نظری اورحقیقت سے خوف زدہ . تحریر: صالح

ہم کہنے کو تو ایک آزاد ریاست پاکستان میں رہتے ہیں لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں یہ سوال ہمیشہ سے میرے ذہن کو مطمئن نہیں کرتا اگر ہم آزاد ہیں تو پھر یہ آزادی نظر کیوں نہیں آتی حقیقت تو یہ ہے کے ہم کبھی آزاد ہوئے ہی نہیں آزادی وہاں ہوتی ہیں جہاں سوال اٹھانے کی اجازت ہو جہاں اپنے موقف اور نظریہ کو رکھنے کا موقعہ ہو جہاں آپ کے موقف کو سنا جائے لیکن پاکستان میں آپ سوال اٹھائے گے تو آپ کو ہر وقت اس بات کا خوف ہو گا کے نہ جانے کب کوئ گولی آئے اور مجھے قبرستان کا راستہ دیکھا دے یا آپ کی فیملی کا مستقبل خطرے میں ہو آپ اپنے نظریات صرف اس وجہ سے بیان نا کریں کے آپ پرسیکولرزم لبرلزم انتہا پسند کے فتوے نا لگا دیے جائے آپ کا جینا مشکل کر دیا جائے اور آپ کی رائے اورموقف کو سنا تک نا جائے مگر افسوس موقف تو وہاں سنا جاتا یا رائے کی آزادی ہو مکالمہ تو اس قوم سے پہلے ہی چھین لیا گیا اب آپ کا موقف آپ کی رائے وہی ہونی چاہیے جو ریاست کی ہے نہیں تو آپ غدار ملک دشمن کہلائے گے اس کے بعد ہمارے ہاں مذہب کو سیاست میں جس طرح سے استعمال کیا گیا اس نے آزادی کو مزید ختم کر دیے اب تو کوئ شخص مذہبی فکر میں موجود خرابی پر بھی اس ڈر سے بات نہیں کرتا کے اسے کافر اور گستاخ قرار دے کر دن دہاڑے مر دیا جائے گا تاریخ کو بھی مسخ کرنے میں ہم نے کوئ کسر نا چھوڑی اور خود کو تیس مار خان سمجھنے لگے ہیں کے دیکھو جو بیان کیا جا رہا ہے اس کو مانا جا رہا ہے اس سے آپ شاید اپنی آنکھوں میں تو دھول جھونک سکتے ہیں مگر تاریخ کو مسخ کرنے سے تاریخ کا کچھ نہیں ہو گا وہ آپ کو مسخ کر دے گی حقیقت تو یہ ہے کے پہلے ہم انگریز کے جسمانی غلام تھے ہماری سوچ فکر اور نظریے آزاد تھے مگر اب جسمانی غلام تو نا رہے مگر نظریات و افکار میں ہم پہلے سے زیادہ غلام بن گے اور بنتے جائیں گے جب تک سوال نہیں اٹھائیں گے.

Comments are closed.