اسلام آباد ہائیکورٹ: توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ ریفرنسز کے جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی
عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پیر تک جواب طلب کر لیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی نیب ریفرنسز کا جیل ٹرائل روکنے کی درخواست پر بھی نوٹس جاری کیا ہے،عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو بھی نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیر کو کیس دستیاب بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے سماعت کی،بانی پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیئے اور کہا کہ یہ دو نوٹیفکیشن ہیں جنکو ہم نے چیلنج کیا ہے،وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے عدالت میں توشہ خانہ کیس پر جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کا پڑھ کر سنایا گیا ،وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کے بھی حوالے دیئے گئے اور کہا کہ ہماری ایک درخواست پر نمبر لگا ہے دوسری پر نہیں لگا،ریفرنس دائر ہونے سے ایک مہینہ پہلے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کردیا گیا ، عدالت قرار دے چکی ہے جیل ٹرائل کیلئے عدالت سے آرڈر ہونا چاہئیے ،جج کی سیکورٹی سے متعلق کوئی ریکوائرمنٹس بھی نہیں ہے، بس نوٹیفکیشن جاری کردیا،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تو ریفرنس فائل کر کے ایک ماہ پہلے جیل ٹرائل کردی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی ریفرنس فائل کرنے سے ایک ماہ پہلے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا،وفاقی حکومت کو کیا پتہ تھا کہ ریفرنس فائل ہوگا؟ 2021 کے نیب قانون کے مطابق صدر پاکستان جج احتساب عدالت کو تعینات کرتا ہے، جج احتساب عدالت اسلام آباد کی تعیناتی نیب پرانے قوانین کے تحت ہوئی،نیب قوانین میں 2022 میں ترمیم کردی گئی، پرانے نیب قانون میں صدر مملکت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سفارش پر ڈسٹرکٹ سیشن جج کو احتساب عدالت کا جج تعینات کرے گا، نیب قانون میں ترمیم کے بعد ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا،پرانے قانون میں صدر مملکت جبکہ نئے قانون میں وفاقی حکومت کو اختیارات دیئے گئے،نیب ترمیمی ایکٹ میں وفاقی کابینہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے جج کی تعیناتی کرسکیں گی،صبح سے شام تک ہمیں جیل میں بٹھاتے ہیں، اکثر مجھے واپس آنا پڑتا ہے،
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد میں اس وقت صرف ایک احتساب عدالت فنکشنل ہے ؟تین میں سے ایک عدالت چل رہی جبکہ وہ بھی نہیں چل رہی کیوں کہ وہ بھی اڈیالہ جیل ہوتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بہت سارے ریفرنسز احتساب عدالتوں میں واپس ہوئے، جسٹس میاںگل حسن اورنگزیب نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ میں آپکو بتاؤ کہ یہ عدالتیں کیوں خالی ہیں؟ یہ سب آپکی لوگوں کی وجہ سے ہیں، جس چیف جسٹس گلزار کا آپ نے نام لیا انہوں نے یہاں تین احتساب عدالتوں کی منظوری دی تھی،ہماری سفارشات پر وزارت قانون و انصاف بیٹھ جاتی ہیں،آپکی حکومت تھی انہوں نے عدالتوں کی منظوری ہی نہیں دی تھی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں یہاں کالے کورٹ میں کھڑا ہوں، لطیف کھوسہ کی بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، جسٹس میاںگل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب قانون میں روزانہ کی بنیاد پر سماعتوں کا لکھا ہے،شعیب شاہین نے کہا کہ نہیں نیب نے صرف ہمارے کیسسز میں روزانہ کی سماعت کا لکھا ہے باقیوں کا نہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس کیس میں کل کتنے گواہوں کی لسٹ دی گئی ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں کل 20 گواہان ہیں جس میں تین کا بیان قلمبند ہوچکا، احتساب عدالت میں صرف عمران خان کے خلاف کیس تو نہیں باقیوں کے خلاف بھی ہیں، نواز شریف سمیت دیگر لوگوں کے خلاف نیب کیسسز ہیں مگر وہاں سماعت ہی نہیں ہوتی، شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے کل بتایا کہ درخواست آپ کے پاس لگی ہے مگر جج صاحب نے پھر بھی سماعت کرلی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہتر نہیں ہوگا کہ انکو نوٹسسز جاری کریں، توشہ خانہ حکومت کی تجوری ہے اور سیکرٹری کابینہ اس کا رکھوالا ہے ، سیکرٹری کابینہ نے سب کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے ،اب وہ اس کیس میں ہے ہی نہیں ، یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہے 50 فیصد آف ، 20 فیصد آف ہے ، اس حوالے سے آرڈر پاس کریں گے ، عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مناسب آرڈر پاس کریں گے ،
واضح رہے کہ بانی تحریک انصاف کیخلاف توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا،بانی تحریک انصاف عمران خان نے جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست دائر کی ، درخواست میں کہا گیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں چودہ نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا،توشہ خانہ کیس میں 28نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا،جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن غیر قانونی ،بدنیتی پر مبنی ہیں ، جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے ،اس درخواست کے زیر التوا رہنے تک ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو روکا جائے، دونوں درخواستوں میں چیئرمین نیب اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے.
اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی ساتھی قیدی کے ساتھ بدفعلی،جان بھی لے لی
دوسری شادی کیوں کی؟ پہلی بیوی نے خود کشی کر لی
منشیات فروش خاتون پولیس کے ساتھ کیسے چھپن چھپاؤ کر رہی؟
نو سالہ بچے سے زیادتی کرنیوالا پولیس اہلکار،خاتون سے زیادتی کرنیوالا گرفتار
مساج سنٹر کی آڑ میں فحاشی کا اڈہ،پولیس ان ایکشن، 6 لڑکیاں اور 7لڑکے رنگے ہاتھوں گرفتار
واضح رہے کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں، عمران خان پر مقدمات کی سماعت جیل میں ہی ہو رہی، عمران خان کو کسی عدالت پیش نہیں کیا جا رہا ہے، سائفر کیس کی سماعت بھی جیل میں ہو رہی ہے، توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت بھی جیل میں ہوئی، دوران عدت نکاح کیس کی سماعت بھی جیل میں ہو رہی ہے، توشہ خانہ و القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت بھی جیل میں ہو رہی ہے، عمران خان نے سائفر کیس کی سماعت کو چیلنج کیا تھا تا ہم عدالت نے اوپن ٹرائل کا حکم دیا ،سماعت جیل میں ہی ہو گی، اسی طرح عمران خان نے باقی مقدمات کے جیل ٹرائل کو بھی چیلنج کیا لیکن عمران خان کو ریلیف نہ مل سکا.