بے حسی جو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ یہاں ہر کوئی اپنے مفاد کے لئے ایسے بھاگتا ہے کہ اپنے چھوٹے سے فایدے کیلیے باقی لوگوں بہت سے مشکلات میں ڈال رہا ہے ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے میں ہسپتال جا رہی تھی ہمارے ایک بزرگ کی تیمارداری کے لئے ، روڈ پر تقریبا آدھے گھنٹے تک ٹریفک رہی آخر کار لوگ تنگ آ کر سواریوں سے اترنے لگے میں بھی اتر گئی اور پیدل چلنے پر مجبور ہوگئی لیکن پیدل چلنے میں بھی وہی دشواریاں ۔ کیونکہ فٹ فاٹ جو کہ پیدل چلنے والوں کے لیے ایک محفوظ راستہ ہے اس پر بھی ان بے حس لوگوں نے ریڑھیاں سجا رکھی تھی تو کسی نے چادر بچھا کر اپنی چیزوں کی نمائش لگا رکھی تھی خیر میں فٹ فاٹ سے اتر گئیں اور روڈ کے ایک سائیڈ پر چلنے لگی وہی رش تھا پیدل بھی لوگ بہت زیادہ تھے گا گاڑیاں بھی بہت زیادہ تھیں ۔تو جب آگے بڑھنے لگیں تو کیا دیکھتی ہو کہ ایک بڑے سے دکان کے باہر بالکل روڈ کے اوپر دکاندار نے ایک تخت سبزیوں کی سجا رکھی ہے اور دکان سارا خالی ہے اور یوں پیدل چلنے والے اس تخت سے ٹکرا رہے ہیں کیونکہ رش بہت زیادہ ہیں اور تخت نے تقریبا روڈ کا ایک تہائی جگہ گھیر رکھی ہے جو بالکل پیدل چلنے والوں کا حق ہے جو ان بے دکان داروں نے ناحق گھیر رکھا ہے۔
میں نے جلدی پہنچنے کی لالچ میں ایک اندرونی بازار کا راستہ اپنایا جس سے تنگ بازار کہتا ہے جہاں صرف پیدل لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے جیسے ہی میں انٹر ہوگی کیا دیکھتی ہوں کہ تین موٹر سائیکل پے در پے ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہیں ایک موٹر سائیکل ،جسپر تین سواریاں تھیں بالکل قریب میرے اوپر سے گزرے میں نے خود کو سمیٹ لیا۔ مجھے دل ہی دل میں بہت افسوس ہوا لیکن کچھ نہیں کہا۔دو قدم آگے چل پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ لوگوں کا ایک جم گھٹا ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے ایکسیڈنٹ ہوا ہو لیکن جیسے ہی قریب آئی کیا دیکھتی ہوں کہ گدھا گاڑی بازار کے بیچوں بیچ پھنسی ہوئی ہے اور چاروں طرف سے لوگ دیکھے لگا رہے ہیں۔
یہ ہماری بے حسی اور خود غرضی کا عالم ہے کہ ہم کس طرح اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہے ۔ارے میرے بھائیو ہمیں تو اس بارے میں قرآن و حدیث میں واضح آگاہی دی گئی ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے ہم کیوں نہیں سمجھتے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے ان قرآن و حدیث سے ۔ وہ ایک کہانی یاد آ گئی کہ ایک بندے نے راستے میں اگھا دیا کہ یہ ایک سایہ دار درخت بن جائے اور راہ چلتے مسافر ان کی چھاؤں میں آرام کریں وہی درخت دوسرے بندے نے اس نیت سے اکھاڑ دی کہ ایسا نہ ہو کے یہ مسافروں کے لئے تکلیف کا باعث بنے تو اللہ تعالی نے ان دونوں بندوں کو برابر کا ثواب بخشا ۔
اس میں ہمارے لئے اک سبق ہے۔ ہمیں بھی ان کی طرح بننا چاہیں تبھی تو ایک خوشحال معاشرہ بنے گا ان سارے مسائل سے پاک ۔
اس معاشرے کے فرد کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھےنہ کہ اپنی ذاتی مفاد کی خاطر دوسروں کو یوں اذیت میں ڈالے تو یہ انسانیت کے خلاف ہے۔
جب تک ہم میں اور آپ میں احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتی تب تک یہ مسئلے حل نہیں ہوں گے کیونکہ ان مسائل نے ہم سے ہی جنم لیا ہے اور ہم ہی نے ان کو حل کرنا ہے یہ مسئلہ نہ پولیس حل کر سکتی ہے نہ فوج اور نہ وزیراعظم۔ جب بھی ٹریفک یا کوئی اس طرح کا مسئلہ پیدا ہو تو یہ لوگ نعرے لگاتی پھرتی ہے کہ بلا لو پھر وزیر اعظم صاحب کو یہ جہالت اور بے حسی کی انتہا ہے کہ یہ مسئلہ خود پیدا کرتے اور پھر سارا الزام وزیراعظم پر ڈال دیتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم ایک بہترین شہری کے طور پر اس معاشرے میں اپنا کردار نبھائے اور ذاتی طور پر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں تبھی تو ایک خوشحال معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں آنے جانے والوں کے لئے آسانیاں پیدا ہو ۔
@koi_hmmsa_nhe