اوراق کی گرداب میں سے کوئی ہیرا تلاش کرنے کی جستجو میں ورق گردانی کرتے ہوئے برٹولت بریخت کا نام نظر کے سامنے سے گزرا۔ برٹولت بریخت معرف جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار تھا۔ اس کے کھیل گلیلیو میں ایک طالب علم گلیلیو سے مخاطب ہو کر کہتا ہے
” بدنصیب ہے وہ دھرتی جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے”
بوڑھا گلیلیو جواب دیتا ہے
"نہیں آندرے بدنصیب ہے وہ دھرتی جسے ہر روز ایک ہیرو کی ضرورت پیش آ جاتی ہے.”
شاید اس وقت ہماری قوم کی حالت بھی یہی ہو چکی ہے جسے ہر چند برس بعد ایک ہیرو کی ضرورت پیش آ جاتی ہے اور پیش آئے بھی کیوں نا ہم کہاں قدر کرتے ہیں ہیروز کی ہم تو قدر کرتے ہیں سیاسی نعروں اور اپنے مفادات کی۔
ایک شخص کے لیے سب سے بڑا ہیرو اس کا اپنا ضمیر ہوتا ہے جو اسے ہر کام سے پہلے بتاتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط
میں کبھی سوچتا تھا کہ ہمیں ایک ہیرو ملے جو اس قوم کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو کنارے لگائے پر اب مجھے ادراک ہوا کہ تلاش رہبر میں ہم کہیں منزل سے دور ہی نہ نکل جائے۔ ہم کیوں کسی کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ آئے اور قوم کو ترقی و سلامتی کا پروانہ تھما دے۔ ہم اپنے اندر کے ایک ہیرو کو تلاش کیوں نہیں کرتے۔ ایک مسند شاہی پر براجمان جمہوری نمائندے کرپشن کرتے ہوئے اپنے اندر کے ہیرو کی آواز کو کیوں دبا دیتے ہیں جو کہ چلا چلا کر کہتا ہے کہ تمہارے ہاتھوں میں اس قوم کا مستقبل ہے۔ منصب عدل پر فائز عدل و انصاف کا رکھوالا نظام عدل کو چند ٹکوں کے بہاؤ فروخت کرتے ہوئے اپنے اندر کے ہیرو کو کیوں بھول جاتا ہے جو اسے یاد دلا رہا ہوتا ہے کہ تجھے انصاف فروشی کے لیے نہیں بلکہ ترویج انصاف کے لیے اس منصب پر فائز کیا گیا ہے۔بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس منصوبہ سازی کرتے وقت قومی مفاد کے بجائے پسند نا پسند کے فارمولے کو اپنا کر اپنے اندر کے ہیرو کی آواز کو کیوں کچل دیتے ہیں۔
اس قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے سیاستدان آخر کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس قوم کی بنیاد کو سینچنے کے لیے صدیوں کی محنتیں شامل ہیں۔ اس عمارت قوم کی بنیادیں فریب و جھوٹ سے کھوکھلی کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس عمارت کو بنانے والوں نے کتنی محنت سے اتفاق و محبت کی مٹی کو اخلاص کے پانی سے گوندھ کر اس عمارت کو بنایا تھا۔
جب تک ہم اپنے اندر کے ہیرو کی آواز کو نہیں سنتے اور اپنے مفادات سے بغاوت کر کے قومی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے تب تک ہم تعمیر قوم میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس قوم کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچانے کے لیے ہمیں سیاسی نعروں اور سیاسی مفادات سے بغاوت کرنی ہو گی ہمیں ہر اس چیز سے بغاوت کرنی ہو گی جو ہماری قوم کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے
بقول حبیب جالب
اس دور کے رسم و رواجوں سے
ان تختوں سے ، ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں
انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
جن کے ہونٹ کی جنبش سے
وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے
قانون بدلتے رہتے ہیں
اور مجرم پلتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔
اُن چوروں کے سرداروں سے
انصاف کے پہرے داروں سے
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جو قوم کے غم میں روتے ہیں
اور قوم کی دولت دھوتے ہیں
وہ محلوں میں جو رہتے ہیں
اور بات غریب کی کہتے ہیں
اُن دھوکے باز لٹیروں سے
سرداروں اور وڈیروں سے
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جو عورت کو نچواتے ہیں
بازار کی جنس بناتے ہیں
پھر اس کی عصمت کےغم میں
تحریکیں بھی چلواتے ہیں
اُن ظالم اور بدکاروں سے
بازار کے اُن معماروں سے
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جو مسلک کے بیوپاری ہے
وہ سب سے بڑی بیماری ہے
وہ جن کے سوا سب کافر ہے
جو دین کا حرف آخر ہے
اُن جھوٹے اور مکاروں سے
مزہب کے ٹھیکیداروں سے
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جہاں سانسوں پر تعذیریں ہیں
جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں
ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں
جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں
سوچوں کی ایسی پستی سے
اس ظلم کی گندی بستی سے
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو ۔ ۔ ۔ ۔
میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے
میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے
میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں
میں موت کی خاطر زندہ ہوں
میرے خون کا سورج چمکے گا
تو بچہ بچہ بولے گا
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں
usmanrazajolaha