ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق سے متعلق قانون ایک بار پھرزیر بحث

0
40

خواجہ سراؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور استحصال و ہراسانی کی حوصلہ شکنی کی غرض سے پاکستانی پارلیمان نے چار سال قبل ایک قانون (ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ) بنایا تھا، جس پر حال ہی میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق: گذشتہ چند روز کے دوران ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی سوشل میڈیا پر مخالفت اور حمایت دونوں دیکھنے میں آ رہی ہے، جبکہ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اس قانون میں ترمیم کے لیے ایک ٹرینڈ (#AmendTransgenderLaw) بھی چلایا گیا۔

بحث کا آغاز ماہ رواں کے شروع میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ایک اجلاس کے بعد ہوا، جس میں ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ میں گذشتہ سال پیش ہونے والا ترامیم کا بل زیر بحث آیا۔ ترمیمی بل کے محرک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں ٹرانسجینڈر افراد کی جنس کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری ہے، جو قانون کے غلط استعمال کی روک تھام میں مدد فراہم کرے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ مرد و خواتین نے خود کو مخالف جنس کے طور پر ریکارڈ کروایا، جو ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے کھلم کھلا غلط استعمال کا ٹھوس ثبوت ہے۔ دوسری طرف ٹرانسجینڈرز کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والی نایاب علی کے خیال میں طبی معائنہ صرف کسی امیدوار کے بیان پر یا قانون کے توڑے جانے کے شک کی صورت میں ہی ضروری ہونا چاہیے۔ نایاب علی، جو خود ٹرانسجینڈر ہونے کے باعث حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں، نے موجودہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دستورِ پاکستان ہر شہری کو وقار کا حق فراہم کرتا ہے، اور جنس کے تعین کی غرض سے صرف ٹرانسجینڈرز کو طبی معائنے کی کوفت سے گزارنا امتیازی سلوک کے زمرے میں آئے گا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹرانسجینڈر افراد کی تعداد لگ بھگ 10 ہزار بتائی جاتی ہے، جبکہ 2015 میں وفاقی وزارت صحت نے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تک پہنچنے کا اشارہ دیا تھا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ٹرانس الائنس کے مطابق 2015 کے بعد سے مختلف واقعات میں 100 کے قریب خواجہ سرا قتل ہوئے، جبکہ تشدد کے دو ہزار مقدمات کا اندراج کیا گیا۔

Leave a reply