قارئین کرام اگر ہمیں کسی چیز کی عادت ہوجائے تو وہ ہمارے لیے ایک نشہ بن جاتا ہے۔ اس کے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ چیز ہمارے دل و دماغ میں بس گئی ہوتی ہے اور پھر اس سے چھٹکارا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بالکل اسی طرح کا حساب تمباکونوشی کا ہے۔ شروع شروع میں انسان اسے معمولی سمجھ کر یا شوق کے طور پر اس کا شکار ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ انسان کی عادت بن جاتی ہے۔ انسان کو اس کام کی لَت لگ جاتی ہے۔ اور اس کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا سدباب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ تمباکونوشی کرتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں اکثر نوجوان ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ بری محفل میں بیٹھنے سے اس کا شکار ہوتے ہیں اس لیے یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کا خیال رکھیں کہ وہ کن کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو طلباء پڑھتے ہیں وہ اس ناسور کا شکار ہیں۔ جو مستقبل کے معمار اپنی توجہ پڑھائی پر دینے کی بجائے ان فضول کاموں میں دیں گے تو پھر ان کا مستقبل روشن کی بجائے تاریک ہوتا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر تمباکونوشی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انسان کی جسمانی اور دماغی صلاحیت کو کمزور کردیتی ہے۔ جب انسان کی صحت ہی بری طرح متاثر ہوگی تو نہ تو پڑھائی ہوگی اور نہ دوسرے کام۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد تمباکونوشی سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں۔ جن میں سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد خود تمباکونوشی نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود ہونے کے سبب اس کے دھوئیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے دل کے امراض اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں اور تمباکونوشی کرنے والا اپنی اوسط عمر سے پندرہ سال پہلے دنیا سے گزر جاتاہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک سگریٹ انسان کی عمر آٹھ منٹ تک کم کر دیتی ہے کیونکہ اس میں چار ہزار سے زائد نقصان دہ اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اور کارسینوجنز بھی موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا سبب بنتے ہیں اگر ہمارے وطن پاکستان کو اچھا مستقبل چاہیئے تو سگریٹ نوشی پر روک تھام کرنی چاہیئے۔ تمباکونوشی کی ممانعت اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کے تحفظ سے متعلق آرڈی نینس، مجریہ 2002 کے مطابق اس میں ایسے اقدامات شامل ہیں جن میں تمباکو نوشی میں مبتلا افراد کے لیے عوامی مقامات پر تمباکونوشی کی ممانعت، تعلیمی اداروں میں تمباکو کی مصنوعات کی رسائی اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ کی فروخت ممنوع ہے ۔
لٰہذا یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچنے کے لیے لوگوں کے اندر شعور اور آگاہی پیدا کی جائے۔ اور حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس اب ہم اس لَت کا شکار ہوگئے ہیں اب نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر انسان مصمم ارادہ کرلے تو ہر بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے ایک ذہن سازی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔
ہر برے کام کا برا نتیجہ ہوتا ہے۔ تمباکونوشی وقت کے ساتھ ساتھ دولت بھی ضائع کردیتی ہے۔ ظاہر ہے جب انسان اس کا شکار ہوگا تو اسے کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس کا مال کن کاموں میں استعمال ہورہا ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی فضول خرچی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ فضول خرچی کرنے والے کو تو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اللّٰہ پاک ہم سب کو اس برے کام سے محفوظ رکھے اور جو اس کام میں مبتلا ہیں ان کو اس سے نجات حاصل فرمائے۔۔۔آمین

@Rumi_PK

Shares: