اداس چہرے از قلم:حدیفہ رضا

اداس چہرے…
از قلم:حدیفہ رضا
شام کی گہری دھند ہر جانب پھیل رہی تھی تیز اور خنک ہوا چل رہی تھی. پرندے اپنے آشیانوں کی جانب محو پرواز تھے. میں افسردہ سی باغیچے کے بینچ پر بیٹھی درختوں کو ہوا کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی تھی. کہ دادا جان باہر آئے مجھے دیکھ کر میرے قریب آکر بیٹھ گئے اور پوچھا باہر ٹھنڈ بڑھ گئی ہے تم کیوں باہر بیٹھی ہو.اور چہرے پر یہ افسردگی اور اداسی کیسی ،کیا کسی نے کچھ کہہ ہے؟
نہیں دادا جان آپ جانتے ہیں سب کتنا پیار کرتے ہیں کسی نے کچھ نہیں کہہ میں نے دادا جان کی طرف دیکھ کر جواب دیا.
دادا جان، پھر یہ کیسی اداسی ہے کیوں اداس ہے میری بیٹی ؟
میں نے دادا جان کی جانب دیکھا اور کہہ دادا جان دل بہت اداس اور پریشان ہے اسکی وجہ مجھے بھی نہیں معلوم نا کسی کو بتانے کو دل کرتا نا بات کرنے کو ایسا کیوں ہے دادا جان یہ کیفیت کیوں میری بلکہ آج کے ہر دوسرے شخص کی کیفیت یہی ہے؟
کیا جب آپ جوان تھے تو آپکے دور میں بھی ایسے ہر جانب اداس چہرے تھے؟دادا جان نے میری جانب دیکھا اور مسکرا دیے بولے بیٹا ہمیں تو اداس ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا. ہمارے پاس بے شک وسائل کم تھے آج کے لوگوں کی طرح ہم امیر نہیں تھے لیکن ہم خوش باش تھے کیونکہ ہمارے پاس دلوں کا سکون تھا. ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے تھے. ایک دوسرے کے دکھ سکھ سنتے تھے اور شامل ہوتے تھے. بے غرض لوگ تھے ہمارے دور میں. اداسیوں کے لفظوں سے بھی نا آشنا تھے لیکن آج کے دور میں یہ نام زبان زد عام ہوچکا ہے. یہ کہہ کر دادا جان خاموش ہوگئے.
میں نے سر اٹھا کر دادا جان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا جسے دادا جان سمجھ گئے کہ میں پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ اب وہ مسکراتے چہروں نے اداس چہروں کی جگہ کیوں لی ؟
دادا جان نے ایک آہ بھری اور چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد بولے یہ اداسی بیٹا آج تم لوگوں کی اپنی پیدا کردہ ہے.
میں نے جھٹ سے پوچھا دادا جان وہ کیسے ؟
ہم تو کچھ ایسا نہیں کرتے جس سے اداس ہوں .نہ ہی ہم تنہا ہیں ہمارے اطراف میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات تو ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے پھر کیسے یہ اپنی پیدا کردہ اداسی ہے ؟
دادا جان ہولے سے مسکرا دیے اور بولے یہی تو اصل وجہ ہے اداسی کی. آج کے لوگ زیادہ اسی ٹیکنالوجی سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ ان سے پیار کرنے والے لوگ انکے خونی اور دلی رشتے انکے پہلوؤں میں بیٹھ کر انکو محبت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ایک نظر انکی جانب بھی گھمائے. لیکن اس میں اعتدال کے ساتھ نہیں چلتے اور یہی وجہ ہے اداسی کی .اور جب یہ اداسی بڑھ جاتی ہے تو ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا کردیتی ہے جس میں آج کا ہر دوسرا انسان چاہے وہ چھوٹا چاہے بڑا ہے مبتلا ہے.
اور دوسری وجہ آج کے اداس چہروں کی اپنے دین سے دوری ہے. آج کی نوجوان نسل دین سے بہت دور ہے. فرض بھی ادا کرتے ہیں تو وہ بھی جلد بازی میں. تو ایسے میں سکون کیسے میسر آئے گا.
جب ہم اپنا زیادہ تر وقت غیر اہم چیزوں کیلئے وقف کردیتے ہیں اور اللہ سے دوری اختیار کرلیتے ہیں تو ہمارا دل مردہ ہوجاتی ہے. اسکو اسکے مطابق غذا میسر نہیں آتی تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ مرجھانے لگتا ہے اور مایوسیوں کے اندھے کنوئیں میں گرتا چلا جاتا ہے.
ہماری دین سے دوری مطلب ہماری زندگی ادھوری ہے. تو کیا ادھوری زندگی خوشی کا باعث بن سکتی ہے. جب تک کسی انسان کو روح کی غذا نا مل رہی ہو تو وہ مایوسی ،ویرانی اور اداسی کا شکار ہونے لگتی ہے.
اور آج کے لوگوں کی روح کی غذا انکے گھروں میں بند پڑے قرآن اور عملی دینی تعلیمات ہیں. جب تک ہم میانہ روی سے نہ چلا جائے گا یعنی دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لیکر چلیں. دین کو دنیا کیلئے نہ چھوڑیں. ہر چیز کو انصاف کے ساتھ چلایا جائے تو اس کیفیت سے نکلا جاسکتا ہے.
دادا جان اسکے باوجود بھی اگر ہم بے جا اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں تو کیا ،کیا جائے ؟
دادا جان سانس لینے روکے تو میں نے جلد اپنا سوال انکے آگے رکھ دیا.
دادا جان ،اداس ہونا ایک فطری بات ہے جیسے رونا فطری ہے. تو ایسے میں اداس ہونا چاہیے خود کو اس سے نہ روکیں. کیونکہ یہ ہماری ذہنی کیفیت ہوتی ہے جو اداسی کی صورت میں باہر آتی ہے. لیکن اداسی ،خوشی ،غصہ، نفرت اور محبت ان سب کو اپنے اطراف میں مت بسائیں ان کو جانے دیا جائے. کیونکہ ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت تک ہی ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے. اگر یہ زیادہ دیر رہے گا تو ہمیں اندر سے بیمار کردے گا یعنی یہاں بھی اعتدال سے کام لیں خود کو ایک ہی خول میں بند نا رکھا جائے ہر آنے والی چیز کے ساتھ خود کو بھی بدلہ جائے اور زیادہ آسانی تب ہوگی جب جتنی جلدی آپ حقیقتوں کو قبول کرنا سیکھیں گے.
ان کیفیات سے باہر نکلنے کا ایک حل اپنے لیے بہترین دوست کی تلاش بھی ہے جس سے اپنا حال دل بیان کیا جاسکے لیکن سب سے بہترین دوست اللہ ہی ہے. اس کیلئے اپنے چھوٹے چھوٹے قطروں کو بہا لیا جائے اور خود کو دنیاوی لحاظ سے بہادر بنائیں کسی بھی کیفیت کو چاہے خوشی کی چاہے اداسی کی ہو اپنے اوپر زیادہ حاوی نہ ہونے دیا جائے. بعض اوقات ہماری منفی سوچیں بھی ہمیں اس مقام پر لے آتی ہیں تو بہتر ہے خود زیادہ سے زیادہ اچھے کاموں میں الجھایا جائے.
یہ کہہ کر دادا جان نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مغرب کی نماز ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے مسجد کی جانب روانہ ہو گئے .
میرا ذہن صرف اس بات پر رکا ہوا تھا کہ ہر چیز کا ایک مقرر وقت ،اختتام اور انجام ہوتا ہے اور ایک دن میری اداسیوں کا بھی اختتام ہوجائے گا (ان شاءاللہ) میں نے آسمان کی جانب دیکھا جہاں اب ٹمٹماتے ننھے ستاروں نے جگہ لے رکھی تھی اور مسکرا کر باغیچے کے اس بینچ کو الوداع کہہ اور نماز ادا کرنے اندر کی جانب بڑھ گئی..۔!!!

Comments are closed.