قدیم چولستان : سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
قارئین کرام !اس مضمون میں قدیم چولستان کی وادی ہاکڑہ اور سرائیکی تہذیب کی منفرد جھلکیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ چار اقساط پر مشتمل سلسلہ سرائیکی ثقافت کی گہرائیوں، رسوم و رواج اور تاریخی ورثے پر روشنی ڈالے گا۔اس کی تیسری قسط ملاحظہ فرمائیں
سرائیکی رسوم و رواج،کلام فرید میں روہی کی منفرد رنگینی،تہوار اور روایات
قسط کا خلاصہ:
چولستان کی شادمانی،خوشی و غمی تقریبات ثقافتی رنگوں سے مزین رسم و رواج سے بھرپور ہیں۔جن میں جھمر رقص،اجرک اور چنئی کے رنگ،رات کی چاندنی کے لطیف جذبوں کی محفل موسیقی،سرائیکی مہان کلاسک اول و آخر قادر الکلام شاعر خواجہ فرید کی کافیوں میں راگوں کی پر ترنم سوز گائیکی کے میلے،کھیلوں سے جنون کی حد تک لگاو،ثقافتی قدیمی تہذیبی تہوار مقامی ثقافت کی دلکش مضبوطی کو ظاہر کرتی ہیں۔دلہن کی رخصتی،دولہا کی سہرا بندی اور صدقہ و خیرات کی روایات آج بھی برقرار ہیں۔گویاچولستانی روہیلا فطرت سے جڑی خوشی میں ایسے رقص جھمر کرتا ہے۔جیسے بارش رم جھم مینہ برساتی ہے۔ریت ناچتی ہے اور کترن کی خوشبو بن کر کالے ہرن کی طرح آزاد دوڑتی روہی کو محبت و پیار کا گیت سناتی ہے۔
تیسری قسط
انسان نے خوشیوں کے ایک ایک کے لمحے کو رسم و رواج کا نام دے کر زندگی میں دکھوں سے لڑنے کی حکمت عملی بنائی ہے۔بارات کے لیے اونٹوں کے کچاوے کی رسم بھی چولستان روہی تھل کا اظہار مسرت و شادمانی ہے۔شادی بیاہ کے موقع پر بارات کو خاص انداز میں اونٹوں کے ذریعے لے جایا جاتا ہے۔جدید فیشن و رواج کی سہولت ٹریکٹر ٹرالی پر جنج کا منظر اپنا رنگین ثقافتی جہاں رکھتا ہے۔اونٹوں کو روایتی زیورات،چمکدار کپڑوں اور کچاوے سے سجایا جاتا ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ منظر نہایت دلکش اور ثقافتی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پورے علاقے میں خوشی اور مسرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سرائیکی دیوان خواجہ غلام فرید روہی چولستان سرائیکی سماجیات کا خوبصورت خزانہ ہے۔جس میں فطرت سے عشق کا فلسفہ ہے۔روہی عاشق کے لیے وصال یار بہشت ہے۔روہی حسین جمیل خوبصورت نازک نازو جٹی جنت کی حور عین بشارت ہے۔رات کی روح صبح صادق سے شام تک صحرائے چولستان کی تپتی ریت پر محبت کے گیتوں سے روہی کے سبزہ سیراب مال مویشی کے سفید دودھ سے مکھن اور لسی اپنے نرم نازک ہاتھوں سے اپنے محبوب کی پیاس کی شدت کو مساوی کرتی ہے۔ان کے کلام آفاقیت میں حسن وجمال روہی واضح ہے۔
اے روہی یار ملاوڑی وے
شالا ہووے ہر دم ساوڑی وے
ونج پیسوں لسڑی گاوڑی وے
گھن اپنے سوہنے سئیں کنوں
وچ روہی دے راہندیاں
نازک نازو جٹیاں
راتیں کرن شکار دلیں کوں
ڈینہیاں ولورڑن مٹیاں
ریت مٹی کی عبادت کی رسم چولستان کے صحرائی لوگوں کی زندگی میں سختیوں کے باوجود اس کی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کا احترام کرنے کے مترادف ہے۔ریت کی عبادت ایک علامتی رسم ہے۔جس میں دعا اور شکرانے کے کلمات شامل ہوتے ہیں۔دھرتی ماں سے محبت و عقیدہ کا استعارہ ہے۔رات کا شکار یہ ایک پرانی روایت ہے جس میں مقامی لوگ مکمل تاریکی میں شکار کرتے ہیں۔اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے صبر،چالاکی اور ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔
منفرد چولستانی وسائل سے اشیاء بنانا روایتی فنون لطیفہ سے عشق کا قصہ ہے۔اونٹ کی کھال پر نقش و نگار فن کا کمال حیرت انگیز مظہر ہے۔اونٹ کی کھال پر ہاتھ سے بنائے گئے نقش و نگار چولستان کی خاص دستکاری ہے۔ان کھالوں سے جوتے، تھیلےاور دیگر اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ریتیلا گلدان بھی جھوک فرید روہی کے خوبصورت حسن کی عکاسی ہے۔صحرا کی ریت کو مٹی کے ساتھ ملا کر منفرد گلدان بنائے جاتے ہیں۔یہ گلدان اپنے مخصوص ڈیزائن اور استحکام کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔
کھجور کے پتوں سے مخصوص طریقے سے بُن کر مضبوط رسی تیار کی جاتی ہے۔ جو زراعت اور روزمرہ زندگی میں استعمال ہوتی ہے۔ریت کے مصوری والے چراغ بھی کمال ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔یہ چراغ مٹی اور ریت کے مرکب سے بنائے جاتے ہیں۔ ان پر مختلف پھولدار مناظر اور نقش و نگار ہاتھ سے بنائے جاتے ہیں۔یہ چراغ نہ صرف روشنی بلکہ ثقافتی خوبصورتی کا ذریعہ بھی ہیں۔چولستانی خوشبو جس میں قدرتی جڑی بوٹی کترن کو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
روہیلے چولستانی اپنی ثقافتی زندگی میں ریت، ریت کی مٹی سے جڑی ہر خوشی اس کے وادی جنت نظیر کشمیر ہے۔روہی کی روح پانی مینہ بارش ہے۔خواجہ فرید سئیں نے روہی کی دلکش سرزمین کو اپنے لازوال کلام آفاقیت سے خوبصورت تخلیق کیا ہے۔سردی ہو یا گرمی صحرائے ریگستان کے سادہ،خلوص و نفیس مٹھاس بھرے لوگوں کے لیے موسم برسات،ساون کا مہینہ دراصل موسم بہار سہاگ ہے۔عید کا سماں ہے۔خواجہ فرید کا سرائیکی روہی رنگ ملاحظہ فرمائیں۔
ساون ڈینہہ سہاگ دے
ہر دم مینگھ ملہار
رل کر ساتھ گزاروں
جوبھن دے دن چار
ساون وقت سہاگ دے
رم رجھم برسن بادل
بٹھ پئے ہجر دے ڈینہڑے
عمر گزاروں رل رل
ساون مینگھ ملہاراں
ترس پووی پنل آ موڑ مہاراں
اغن پپہیے کرن بلارے
رس کوئل کوک سنائی
ملک ملہیر وسایم مولا
سبھ گل پھل خنکی چائی
رل مل سیاں ڈیون مبارک
مد بھاگ سہاگ دی آئی
مدتاں پچھے رانجھن ملیا
رب اجڑی جھوک وسائی
چولستان وادی ہاکڑہ تہذیب وتمدن چھ ہزار سال قدیم تاریخی ثقافتی ورثے کی محفوظ ہے۔چند میڈیا رپورٹس پر سات ہزار سال پرانی سرسوتی تہذیب وتمدن بھی کہا جارہا ہے۔اس پہلی مرتبہ 1975ء میں ڈائریکٹر آثارقدیمہ ریسرچر ڈاکٹر رفیق مغل نے کھدائی کے دوران انکشاف کیا۔چولستان کا قدیم ترین قومی ورثہ،آج کا فنون لطیفہ،روہیلوں کی ہنرمندی چولستان کی مال مویشی پال منڈی پاکستان کی معاشی خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔
روہی میں طرح طرح کی جڑی بوٹیوں اور اونٹ کے دودھ کے ذریعے تیار کی جانے والی خوشبو مقامی لوگوں کی روایت کا حصہ ہے۔یہ خوشبو نہ صرف منفرد ہے بلکہ اسے شفا بخش بھی سمجھا جاتا ہے۔چولستان کے روایتی کمبلوں پر صحرا کے مناظر، اونٹ اور مقامی زندگی کے عکس بُنائی کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں۔خواجہ فرید سئیں روہی میں اپنی رہائش گاہ کے لئے گوپہ جھوپڑی کے لیے کھکھ کانے، لائی،لانڑے،کھپ کا استعمال کررہے ہیں۔مقامی روایتی ثقافتی دستکاری کی افادیت بتا رہے ہیں۔
جھوپڑ جوڑ بنیسوں کھپ دے
تھل دے صاف پساڑ تے
یہ دستکاری روایتی فنون کی عکاسی کرتی ہے۔ریت سے بنے گیم بورڈ روہی کھیلوں میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔صحرا کی ریت اور مٹی سے تیار کردہ شطرنج اور لڈو کے بورڈ منفرد فن کا شاہکار ہیں۔یہ نہ صرف کھیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں بلکہ خوبصورت آرائشی اشیاء کے طور پر بھی پسند کیے جاتے ہیں۔اونٹنیوں کی گود بھرائی تہوار ایک منفرد اور دلکش ثقافتی رسم و روایت ہے جس میں اونٹنیوں کو شادی بیاہ کی طرز پر سجایا جاتا ہے۔اس میلے میں خاص طور پر اونٹنیوں کی زینت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جنہیں رنگ برنگے کپڑوں،جھالر دار گھنٹیوں اور خوبصورت زیورات سے آراستہ کیا جاتا ہے۔میلہ مقامی لوگوں کے لیے نہ صرف تفریح کا باعث ہوتا ہے بلکہ یہ اونٹوں کے مالکان کے لیے اپنی مہارت اور اونٹوں کی خوبصورتی کا مظاہرہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
یہ میلہ مختلف ثقافتی سرگرمیوں،موسیقی، روایتی کھانوں اور اونٹوں کی دلچسپ مقابلوں کے ساتھ منایا جاتا ہے۔جہاں دیہاتی اور شہری افراد بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس قسم کے میلے دیہی ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔اونٹ کے دودھ کا پاؤڈر روایتی طریقے سے اونٹ کے دودھ کو خشک کرکے پاؤڈر بنایا جاتا ہے جو مقامی لوگ غذائی اور طبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ پاؤڈر معدے کی بیماریوں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔پانی سے سبزہ لہلہاتی چہل پہل زندگی خوبصورت وادی ہے۔اگر پانی نہیں ٹوبھے خشک اور قحط سالی کا بیاباں منظر ہوتاہے۔خواجہ فرید سئیں کے لیے روہی چولستان کی زندگی ایک طرف خوشی کا اسباب ہے تو دوسری طرف وچھوڑے مونجھ ملال غموں کا خوبصورت جہاں ہے۔تخیلاتی قوت کا رنگ نہایت عمدہ ہے۔
میڈا خوشیاں دا اسباب وی توں
میڈا سولاں دا سامان وی توں
جاری ہے