بلاشبہ ہماری قومی زبان اردو کی بے وقعتی ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔۔آج سے پہلے میں نے کبھی بھی اس نہج پر اس طرح نہیں سوچا جس طرح آج سوچ رہی ہوں۔۔۔
آج تک سارے تجزیاتی پروگرام اور جتنے بھی تفریحی پروگرام میں نے دیکھے اور سنے ان سب کا نقشہ میرے ذہن میں ابھر آیا کہ وہاں پر بھی ہمیں خالص اردو سننے کو نہیں ملتی اور نہ ہی ہم خود بولتے ہیں۔
آج پہلی بار مجھے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے شدید شرمندگی ہوئی ہے کہ میں خود ہمیشہ انگریزی زبان کو اردو پر فوقیت دیتی رہی ہوں۔
انگریزی زبان کو ترقی دینے والے ہم خود ہیں۔انگریزوں نے جسمانی طور پر آج سے کئی سال پہلے ہمیں آزاد تو کر دیا لیکن ذہنی طور پر آج بھی ہم ان کے غلام ہی ہیں کیونکہ ہمیں ہماری قومی زبان بولتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے اور غیروں کی زبان پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔مختلف زبانیں سیکھنا اور بولنا بہت اچھی بات ہے لیکن اس دوڑ میں ہم نے اپنی قومی زبان کے ساتھ شدید ناانصافی کر دی ہے اور اس کے ذمہ دار حکومتی اعوانوں میں بیٹھے اعلیٰ سطح کے عہدہ داروں سے لیکر ایک سبزی فروش تک سب ہیں۔ہم نے ہر جگہ یہ تحریر چسپاں کردی ہے کہ اچھی تعلیم اور اچھی نوکری کی گواہی صرف ایک چیز ہی دے گی اور وہ ہے اچھی انگریزی اور باقی ماندہ زبانیں۔
گھروں میں بچوں کو انگریزی پروگرام دکھائے جاتے ہیں تاکہ بچپن سے ہی ان کی ذہنی نشوونما میں وہی زبان رچ بس جائے۔اعلی ایوانوں غیر ملکی سرکاری دوروں میں بھی اپنی قومی زبان کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جو کہ ہماری سستی نااہلی اور کاہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انتہائی معزرت کے ساتھ جب تک آپ خود یعنی ہم یہ قوم
اور اس ملک کا ایک ایک شہری ایک ایک فرد اپنی قومی زبان کو عزت نہیں دے گا بالکل اسی طرح جس طرح گورے دیتے ہیں جس طرح چینی اور باقی ترقی یافتہ قومیں دیتی ہیں تب تک ہم کبھی بھی ترقی پزیر قوموں کی فہرست سے نہیں نکل سکیں گے۔
اس کے لئے قوم میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کا بہترین ذریعہ جدید مواصلاتی نظام ہے۔

تحریر غلام فاطمہ

Shares: