لاہور:عثمان بزدارکی بےنامی جائیداد کی تفصیلات:15 ارب کی کرپشن کیسےکی؟اس حوالے سے انکشافات کرتے ہوئے سنیئرصحافی مبشرلقمان نے کہا ہے کہ عمران خان کے پونے چار سالہ دور اقتدار میں جس چیز پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی وہ عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس تھے۔ عمران خان نے عثمان بزدار کو ہر جگہ ڈِیفینڈ کیا، اور ہم ایک عرصہ تک یہ سنتے رہے کہ عثمان بزدار کام سیکھ رہے ہیں۔ لیکن اب حیران کن انکشاف ہوئے ہیں کہ عثمان بزدار نے اپنے پہلے سال کی نسبت چودہ گنا کام سیکھا اور کارکردگی بھی دیکھائی لیکن یہ کارکردگی ملک اور قوم کی عوام کے لیے نہیں بلکے اپنے اثاثے بنانے کے لیے دیکھائی گئی۔ عثمان بزادر پر اقتدار کے پہلے سال ایک ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے جبکہ اگلے دو سالوں میں انہوں نے مبینہ طور پر چودہ ارب روپے کی کرپشن کی۔ کرپشن کرنے کے نئی سائنسی اور پرانے روائیتی طریقوں پر انحصار کیا گیا۔ کہاں کیسے کس طرح اور کس چیز میں انہوں نے کیسے پیسے بنائے، کہاں کہاں انویسٹمنٹ کی ۔۔آج میں تمام تہلکہ خیز انکشافات آپ کے سامنے رکھوں گا جو آپ نے نہ تو پہلے سنے ہوں گے اور نہ ہی کہیں دیکھے ہوں گے۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ 2018 میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، جناب عثمان بزدار منظم مالی بدعنوانی کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال اور پبلک سیکٹر کے فنڈز میں غبن میں ملوث رہے۔ بدعنوانوں بیوروکریٹس کی ایک ٹیم کی مدد سے عثمان بزدار نے کرپشن میں مہارت حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، اس کے طریقے اور غبن کا حجم بدعنوانی کے ایک نفیس اور باضابطہ نیٹ ورک میں تبدیل ہو گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر اپنے پہلے سال کے دوران، عثمان بزدار نےگیارہ مبینہ کیسوں میں ایک ارب سولہ کروڑ روپے بنائے۔وہ گیارہ کیس کون سے ہیں ان کی تفصیل میں آگے جا کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔لیکن اگلے تین سالوں میں عثمان بزدار نے بدعنوانی اور کرپشن کی نئی بلندیوں کو چھولیا۔ انہوں نے منظم کرپشن کے لیے ایک باضابطہ نیٹ ورک تیار کیا ہے جس میں بدمعاش بیوروکریٹس اور بدنام زمانہ فرنٹ مین شامل تھے۔ دوسرے اور تیسرے سالوں کے دوران عثمان بزدار کی مبینہ کرپشن کم از کم 15.3 بلین روپے تھی اور ہر آنے والے سال اپنے ہی ریکارڈ کو مات دی ۔آج کے پروگرام میں ۔۔ میں آپ کو یہ بھی بتاوں گا کہ عثمان بزدار اور اس کے اعلان کردہ اور بے نامی اثاثون کی ثابت شدہ ٹریل کیا ہے۔لیکن اس سے پہلے آپ کو پہلے سال میں سوا ارب کی مبینہ کرپشن کی تفصیل بنا دوں۔

ان کا کہناتھا کہ عثمان بزدار نے اپنے ساتھی مختیار احمد جتوئی کوTMO Tounsa مقرر کیا اور 50 ملین روپے کی منظوری دی۔ ایم سی تونسہ میں ترقیاتی کاموں کے لیے زمین پر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا اور پانچ کروڑ کا چونا لگا دیا گیا۔لاہور میں Unicorn Prestige Hotelکے لیے الکوحل کا لائسنس۔ ستر لاکھ روپے لینے کا الزام۔عثمان بزدار نے سمیع اللہ چوہدری (ایم پی اے بہاولپور) کے ساتھ چینی پر سبسڈی دینے کے لیے 50 ملین روپے کی کابینہ کی منظوری کا انتظام کیا۔Hubb Gull Khanعثمان بزدار کے فرنٹ مین تھے ،نے بغیر کسی نیلامی کے ٹول ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا۔ اور تقریبا سوا کروڑ روپے سالانہ بنائے

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ ڈی ایس پی عامر تیمور (چچا) کو ڈی پی او بہاولپور تعینات کر دیا گیا۔ اسے پولیس اہلکاروں کی ہر مطلوبہ پوسٹنگ پر پانچ لاکھ سے پچیس لاکھ روپے ملنا شروع ہو گئے۔کیپٹن (ر) اعجاز جعفر (کزن) Ex-ACS Punjab نے دس لاکھ سے پچاس لاکھ روپے لے کر افسران کی متواتر پوسٹنگ شروع کر دی۔ ان کی مدت کے دوران، ہر افسر کی اوسط مدت تقریبا دو ماہ تھی۔عمر خان بزدار (بھائی) نے تونسہ میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن بند کروانے کے لیے دوکاندارون سے تیس لاکھ روپے وصول کیئے۔مسلم لیگ ن کے ایم پی اے عطا الرحمان پر اکیس سالہ لڑکی سدرہ سلیم کے ساتھ گیارہ ماہ تک زیادتی کے کیس میں مدد فراہم کرنے کے لیے عثمان بزدار کے قریبی دوست طاہر چیمہ نے مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے وصول کیئے۔ اس کیس میں میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت ہو گئی تھی۔عثمان بزدار کے بھائی عمر بزدار نے ڈی جی خان میں براہ راست زمینوں پر قبضہ کی سرپرستی بھی کی۔ جبکہ دوسرا بھائی طور خان بزدار اپنے فرنٹ مینوں کے لیے سڑکوں کے ٹھیکوں کا انتظام کرتا رہا۔یہ تو وہ معمولی سی مبینہ کرپشن ہے جو اناڑی عثمان بزدار نے کی، لیکن کھلاڑی عثمان بزدار نے کام سیکھ کر جو گل کھلائے ۔ آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ اگر عثمان بزدار کے مبینہ Un declared اثاثوں اور کاروبار کی بات کی جائے تو اس میں199کنال ایگری لینڈ Tuman khosa میں، بتیس کنال جگہ میاں چنوں میں، 35 کنال جگہ ملتان میں اور اکتیس مرلے رہائشی پلاٹ کی صورت میں ملتان میں ہی ہیں۔اگر کاروبار کی بات کی جائے تو ۔۔ تونسہ میں ایک پٹرول پمپ، سخی سرور روڈ ڈی جی خان میں ایک ٹیکسٹائل مل، انصاف فلور مل ۔۔کوٹ موڑ تونسہ شریف۔بحثیت انویسٹر ایک Toyota show room D G khan.Syed crush plant basti Buzdar یہ سب چیزیں وزیر اعلی کی نامزدگی کے بعد سامنے آئی ہیں جبکہ جو جائیداد وزیر اعلی بننے کے بعد بنائی ہے اس میں،4 acre Spanish villah multan.Tuff tile factory tounsaدوست محمد بزدار جو Brother in law ہے نے سوزوکی چوک ڈی جی خان میں چار کنال کمرشل جگہ کی ایک ڈیل فائنل کی جس کی مالیت ایک ارب کے قریب ہے۔عثمان بزدار کا دوست جاوید قریشی بحرین میں انویسٹمنٹ کرتا رہا۔اپنی آبائی زمینیوں پر سرکاری خرچے سے انفراسٹرکچر بنا کر ڈھائی ارب روپے کا فائدہ اٹھایا گیا۔ جبکہ درجنوں پراپرٹیز ایسی ہیں جو کبھی بھائی تو کبھی فرنٹ مین اقبال عرف دالی اور دیگر لوگوں نے مختصر عرصے میں خریدی ہیں۔

اب بات کرتے ہیں جب عثمان بزدار کرپشن کے کھلاڑی بن گئے تو پھر کیا ہوا۔۔؟عثمان بزادر کے مرحوم والد جناب فتح محمد بزدار کے پاس پونے چار ارب روپے کی آٹھ پراپرٹیاں تھی جس کے آٹھ وارث ہیں۔ عثمان بزدار نے اپنے نام پر تقریبا بیس کروڑ روپے کی پراپرٹی ڈکلیئر کی ہیں۔ لیکن عثمان بزدار کے نام کے ساتھ بے تحاشا، غیر اعلانیہ اثاثے، کاروبار اور جائیدادیں جڑی ہوئی ہیں تقریبا بیس کروڑ روپے کے غیر اعلانیہ اثاثے۔۔ ستائیس کروڑ روپے کے کاروبار اور دس ارب روپے کی جائیدادیں اور اثاثے جو مبینہ طور پر حال ہی میں حاصل کیئے گئے ہیں۔ایک ایک کی تفصیل میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہسابق وزیر اعلی عثمان بزدار کا پنجاب میں کرپشن کا نیٹ ورک پاکستان کے دوسرے صوبوں میں پہلے سے بنے ہوئے کرپشن نیٹ ورک سے کسی بھی صورت کم نہ تھا۔اور ان کے تمام معیاروں پر پورا اترتا تھا۔

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ اگرچہ پبلک سیکٹر کے فنڈز کی آمد محدود رہی ،لیکن عثمان بزدار حکومت کے دوران کرپشن نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ۔ سالانہ ترقیاتی منصوبے کی مد میں آخری سال بڑے پیمانے پر فنڈز آنے کے بعد، بزدار اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے غیر معمولی بدعنوانی کی کوشش کی گئی جس کے گورننس اور صوبے کی مالیاتی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوئے۔شروع میں بدعنوانی انفرادی سطح پر کی گئی پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ منظم کرپشن میں تبدیل ہو گئی۔ سابق پرنسپل سکریٹری مسٹر طاہر خورشید جسے عثمان بزدار کی مکمل حمایت اور منظوری حاصل تھی نے بدعنوانی کے مشترکہ ایجنڈے کے تحت کلیدی اداروں اور محکموں کے سربراہان کی تقرریاں کی ۔ اس عمل سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اور کرپشن کے نظام کو رواں دواں رکھنے کے لیے بار بار پوسٹنگ، ٹرانسفر کا طریقہ کار اپنا یا گیا۔ پیسے بنانے کے دیگر طریقوں میں ٹھیکے دینے کے دوران رشوت اور کک بیکس کی وصولیاں بھی شامل تھیں۔

پنجاب میں تمام مالیاتی متعلقہ تقرریاں جن میں صوبائی سیکرٹریوں سے لے کر ہائی ویز میں ایس ای ، ایکس ای اینز ، ایس ڈی اوز، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ اور منافع بخش حلقوں کے پٹواریوں تک کو عثمان بزدار اور ان کے ساتھیوں نے فروخت کیا۔ ایسا مایوس کن معاملہ انتہائی آمرانہ حکومتوں میں بھی نہیں ہوا۔پنجاب میں بدعنوانی اور حکمرانی کا فقدان بھی بیوروکریسی کے صفوں اور فائلوں میں مایوسی اور ناراضگی کو جنم دے رہا تھا، جہاں ایماندار بیوروکریٹس کو کسی نہ کسی بہانے اہم بلوں سے انکار کیا جاتا رہا۔ عثمان بزدار کی غلط حکمرانی اور بدعنوانی کا ایسا بے لگام جادو پنجاب میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا۔ کرپشن کے دوسرے مرحلے میں طاہر خورشید، سابق سیکرٹری وزیراعلیٰ سارے کھیل کے مرکزی کردار تھے،

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ جب وہ ڈی جی خان قبائلی علاقے میں خدمات انجام دے رہے تھے تو وہ عثمان بزدار سے واقف تھے۔بزدار نے انہیں اپنے ابتدائی مرحلے میں کمشنر ڈی جی خان تعینات کر دیا۔ طاہر خورشید نے بزدار خاندان کے معاملات اس قدر اچھے طریقے سے چلائے کہ وزیراعلیٰ کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ بعد ازاں عثمان بزدار نے انہیں سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو مقرر کیا جہاں انہوں نے اربوں کمائے۔ اس کیس پر ان کے خلاف نیب انکوائری بھی جاری ہے۔پنجاب حکومت نے جب لوکل گورنمنٹ اور LG &CDکے لیے پچاسی ارب روپے کی منظوری دی تو عثمان بزدار نے طاہر خورشید کو ان فنڈز کی ترسیلات کے لیے سیکرٹری LG & CD لگا دیا۔ جب عثمان بزدار نے انہیں سیکرٹری سی ایم سیکرٹریٹ تعینات کیا تو طاہر خورشید نے ہم خیال بیوروکریٹس کی پوسٹنگ کا انتظام شروع کر دیا۔ جس سے ماہانہ ایک سے پانچ کروڑ روپے رشوت کا راستہ صاف کیا گیا۔ جبکہ دیگر بیوروکریسی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے خوف اور غلط الزامات کا سہارا لیا گیا۔وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں طاہر خورشید کی تعیناتی نے منظم طریقے سے عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے سائنسی طریقہ کار کی راہ ہموار کی۔ایک ہاوسنگ سوسائٹی جولاہور میں ہے ۔۔ کو ٹیکنیکل Approvalکے بغیر پندرہ دن میںNOC دے دیا گیا، اور پچیس کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن کی گئی۔نظام کو ٹھیک کرنے کے دعوے داروں نے123پٹواریوں کو ایک دن میں پندرہ لاکھ فی پٹواری حاصل کر کے تعینات کر دیا۔ اور ایک ہی دن میں اٹھارہ کروڑ چالیس لاکھ روپے بنا لیے گئے۔طاہر خورشید نے کمشنر ساہیوال پر ہڑپہ ٹیکسٹائل ملز کی 800 کنال زمین کو صنعتی سے رہائشی میں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ حثیت کی تبدیلی سے زمین کی قیمت میں چالیس ارب روپے کا اضافہ ہوا اور آٹھ ارب روپے کی مبینہ کرپشن کی ڈیل کی گئی۔عثمان بزدار کے بھائی عمر بزدار کو ملتان میں سٹی ہاؤسنگ کی توسیع کی منظوری دی گئی ۔ پچاس کروڑ کی مبینہ کرپشن۔

ان کا کہنا تھا کہ عمر بزدار کے فرنٹ مینوں نے ادویات کی مقامی خریداری اور ڈی جی خان میں ٹرانسپورٹ سے ٹول ٹیکس کی وصولی میں ملوث ہو کر ماہانہ ایک کروڑروپے کمائے، ہاؤسنگ اسکیموں کی منظوریاں دے کر سالانہ پچاس کروڑ روپے کمائے گئے۔جعفر بزدار (بھائی) نے سرکاری پوسٹنگز کروا کر دو کروڑ روپے ماہانہ کہ بنیاد پر کمائے۔ CEO LWMCنے مشینری کی خریداری کے لیے چھ ارب روپے کے معاہدوں کو حتمی شکل دی جس میں دو ارب روپے کی مبینہ کرپشن کی گئی۔ محکمہ صحت میں لاہور کے پانچ بڑے ہسپتالوں میںLocal purchase کی مقدار ڈیڑھ ارب ہے، سپیشلائزڈ ہیلتھ کے ذریعے سابق وزیر اعلی کو بڑا حصہ دیا جاتا ۔ فارما کمپنیوں اور ہیلتھ انسپکٹرز کا ایک منظم گروپ تھا جو اس وصولی کا انتظام کرتا تھا۔صرف ایک ارب روپے توسرکاری افسران کی پوسٹنگ،تبادلوں پر کما لیئے گئے۔طور خان بزدار کو ڈی جی خان میں سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ چوبیس کروڑ روپے میں دیا گیا۔اورنگزیب چوہدری جو طاہر خورشید کا فرنٹ مین ہے نے ایم ایم عالم روڈ پر چار کنال کا بنگلہ خریدا۔زمین کی خریداری کے بعد، اسی گلی کو نئی سڑک کی تعمیر کے ساتھ ماڈل روڈ کا نام دیا گیا۔ اور ان سارے کاموں میں مبینہ طور پر پندرہ ارب روپے کے گھپلے کیئے گئےعمران خان کی بشری بی بی سے شادی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ عوام کو تو یہ بتایا جاتا ہےکہ بشری عمران خان کی تیسری اہلیہ ہیں مگر سرکاری کاغذات کچھ اور ہی کہانی بتاتے ہیں ۔ کیونکہ بشری بی بی کا پاسپورٹ دیکھیں ۔ ایف بی آر کے ڈاکیومنٹ دیکھیں تو اس میں ان کا نام بشری خاور فرید ہے ۔ جبکہ شوہر کانام مانیکا خاور فرید ہے ۔ پاسپورٹ آپ سکرین پر دیکھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایف بی آر کے ڈاکیومنٹس دیکھیں تو بشری بی بی کی جانب سے 2021کا ٹیکس ریٹرن جمع کروایا گیا اس میں بھی انکا نام بشری خاور فرید مانیکا ہے ۔ اسی طرح جب عمران خان اوربشری بی بی سعودی عرب گئے تو جو ویزے کا اجراء کیا گیا اس کے مطابق بھی ان کا نام بشری خاور فرید مانیکا ہی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پاسپورٹ سمیت ویزہ اور جو 2021 میں بشری بی بی نے اپنی پہلی ریڑن جمع کروائی اس میں ان کا پرانا نام کیوں ہے کیونکہ قوم کو تو بتایا گیا تھا کہ 2018میں عمران خان اور بشری بی بی کا نکاح ہوا تھا ۔ اس سے پہلے یقیناً طلاق ہوئی ہوگی ۔ سرکاری طریقہ کار یہ ہے کہ طلاق نامہ پہلے ثالثی کونسل کے پاس جاتا ہے ۔ تو اس کا نوے دن کا procedureہوتا ہے ۔ پھر نوے دن کے بعد وہ Divorce certificateدیتی ہے ۔ وہ بڑے بڑے کھڑپینچ رپورٹرز نے کوشش کی کہ نکل آئے پاکپتن ، دیپالپور کسی جگہ سے نہیں ملا ۔ اچھا نکاح کی بات کی جائے تو اس حوالے سے دو رائے ہیں کہ بنی گالہ میں نکاح ہوا ۔ دوسرا فرح گجر کے گھر لاہور میں ہوا ۔ مگر ان دونوں جگہوں سے بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملا ۔ یہاں سے اب میں آپکو پھر پیچھے لے کر جاوں گا کہ بار بار سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بشری بی بی کا پاسپورٹ ، ایف بی آر اور ویزا اجراء میں نام کیوں تبدیل نہیں ہوا ۔ پرانا نام کیوں چلا آرہا ہے ۔ کیونکہ ملکی قانون اور اسلام کے مطابق بیٹی کے ساتھ والد کا نام لگتا ہے اور شادی کے بعد یہ عورت کی چوائس ہے کہ وہ والد کانام لگائے یا شوہر کا ۔۔۔اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ اب اس حوالے سے جب طلاق ہوجاتی ہے تو Divorce certificateملنے کے بعد نادرا کے ریکارڈ میں عورت کے نام کے ساتھ شوہر کا نام ہٹ جاتا ہے اور والد کا نام آجا تا ہے ۔ پھر جب وہ عورت شادی کرتی ہے تو نئے شوہر کا نام لگوانا چاہے تو آئی ڈی کارڈ اس حوالے سے اپڈیٹ ہوجاتا ہے ۔

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ یہ کہانی بڑی ہوش ربا اور انکشافات سے بھرپور ہے ۔اس حوالے سے بہت سے رپورٹ تجزیے اور خبریں ہم نے سن رکھی ہیں کہ بشری بی بی ایک روحانی خاتون ہیں اور عمران خان ان کو بہت مانتے تھے بلکہ کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ بظاہر عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے میں بشری بی بی کا بڑا اہم کردار ہے ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بشریٰ بی بی پر پاکستان کی خاتون اول بننے کے بعد سے جادو ٹونے کا الزام لگاتی رہی ہیں ۔ اگرچہ بشریٰ بی بی کے بارے میں زیادہ معلومات عوام کے علم میں نہیں ہیں لیکن جب دونوں کی شادی ہوئی تو پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ عمران خان 2015 سے بشریٰ بی بی سے روحانی رہنمائی کے لیے آ رہے تھے اور ان کی بہت سی سیاسی پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں۔۔ پھر جب عمران خان اور بشری بی بی کی شادی منظر عام پر آئی تھی تو اس وقت سینئر صحافی و کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں بہت سے انکشافات کیے تھے ۔ چوہدری صاحب کا لکھنا تھا کہ عائشہ گلا لئی نے یکم اگست2017ءکو عمران خان پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ عمران خان الزام کے فوراً بعد تین اگست کو بشریٰ بی بی کے ساتھ پاک پتن گئے اور مزار شریف پر سلام کیا۔ بشریٰ بی بی نے خان صاحب کو تسلی بھی دی اور یہ یقین بھی دلایا ۔۔۔ آپ اس بحران سے صاف نکل جائیں گے ۔۔۔۔ بشری بی بی کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی اور یہ ایشو آہستہ آہستہ دب گیا۔

سینئرصحافی کھراسچ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کہتےہیں کہ چوہدری صاحب کے مطابق یہ دونوں میاں بیوی (بشری اور خاور مانیکا) عمران خان کےلئے رشتہ بھی تلاش کرتے رہے۔ یہ کوئی ایسی خاتون تلاش کر رہے تھے جس کی عمر چالیس اور پچاس سال کے درمیان ہو‘ جو مذہبی ہو‘ گھریلو ہو اور جو عمران خان کےلئے خوش نصیب ثابت ہو‘ یہ دو سال تک رشتہ تلاش کرتے رہے لیکن رشتہ نہ مل سکا لیکن آخر میں بشارت ہو ئی ۔ روحانی رہنمائی ملی اور رشتہ قرب و جوار میں ہی مل گیا۔

Shares: