مزید دیکھیں

مقبول

کراچی: ایک سال میں 5 لاکھ گاڑیاں ضبط کیں، ایڈیشنل آئی جی

کراچی: ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا...

آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر منشیات کیس میں قصور وار قرار

آسٹریلوی سابق ٹیسٹ کرکٹر اسٹیورٹ میک گل کو نیو...

لاہور میں سرعام شہری پر تشدد کرنے والے ملزمان گرفتار

لاہور پولیس نے دھرم پورہ بیجنگ انڈر پاس پر...

سیالکوٹ میں فوڈ اتھارٹی کا آپریشن: 4 سویٹس یونٹس جرمانے، مضر اجزاء تلف

سیالکوٹ، باغی ٹی وی (بیوروچیف شاہد ریاض ) رمضان...

استاد کیا بِگڑا پورا معاشرہ ہی بِگڑ گیا! تحریر فہد علی

14 اگست

کو گریٹر اقبال پارک میں پیش آنے والے سانحے کے بارے میں سوشل میڈیا سے معلوم پڑا جس نے نا صرف مجھے بلکہ ہر اس شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو سینے میں اس قوم و ملت کا درد رکھتا ہے

اور اس ملک کو مہذب اقوام کی فہرست میں سب سے اوپر دیکھنا چاہتا ہے اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا کرتا ہے کہ نا صرف اس ملک کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے بلکہ بھائیوں اور بیٹوں کو بھی نیک اور صالح بنا دے

سب کو اسلام کی حقیقت نصیب فرما دے

اس سانحے کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے

اول یہ کہ ہمارے ہاں بہت سے ہیرے بھی پائے جاتے ہیں جو اخلاص و اخلاق کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہیں

لیکن ایسے درندوں اور ناعاقبت اندیشوں کی بھی بھر مار ہوتی چلی جا رہی ہے

جن کی وجہ سے آئے دن سر شرم سے جھک جاتے ہیں اور اخلاقی پستی کی دگرگوں حالت کو دیکھ کر دل کڑھتا بھی ہے

کچھ لوگوں کو سنتے پایا گیا کہ شکر ہے اللہ نے بیٹی نہیں دی کچھ نے تو یہ دعائیں بھی مانگیں کہ یا اللہ کبھی بیٹی نا دینا

کیسی احمقانہ سوچ اور اپروچ ہے

ایک بیٹی کا باپ ہوتے ہوئے کیا اب میں پچھتاؤں کہ اے اللہ مجھے بیٹی کیوں دی

ہر گز نہیں!

بیٹیاں اللّٰہ کی رحمت ہوتی ہیں اور رحمت کے حصول پر کبھی نادم و نالاں نہیں ہوا جاتا

ہاں مگر میں اور آپ، ہم سب، جو مل کر ایک معاشرہ بناتے ہیں۔ ہمیں اس کی اصلاح ، تزکیہ و تطہیر کی ضرورت ہے

ہم سب کو مل کر ذمہ داری لینی ہو گی

لیکن سب سے بڑی ذمہ داری اور حق اساتذہ کا ہے

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا استاد صرف معلم رہ گیا

مربی نا رہا

تعلیم کا پیشہ ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے

لیکن یہ ہر گز معلوم نا تھا کہ کیسے کیسے بگڑے لوگ استاد بنے بیٹھے ہیں

جنہیں بس اپنی دنیا کی فکر لاحق ہے، جن کے لیے صرف اور صرف اپنے مفادات معنی رکھتے ہیں اور دوسرے ان کے لیے صرف عوام ہیں۔ لاہور بورڈ کے جاری پیپرز نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہر طرف ایسا عملہ لگایا گیا جو پورے کا پورا

سینٹربیچتے رہے۔ تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے

یہ لوگ کیسے تربیت کریں گے؟

استاد سکول میں بیٹھ کر بھی نہیں پڑھاتے ۔ یہ خود اتنا بگڑ چکے کہ انہیں خود اصلاح کی ضرورت ہے، یہ کیا اصلاح کریں گے؟

1993, 1997

میں

ایک کاغذ کا ٹکڑا ، جسے ڈگری کہا جاتا ہے

 کے بل بوتے پر آگے آنے والے یہ سفاک لوگ، جو اکثر و بیشتر جعلی طور پر بھرتی ہوئے انہیں اس قوم کی تربیت سے کیا غرض ہو سکتا تھا

جو دوسروں کا حق سلب کر کے آگے آئے ہوں ان کے سینوں میں اس قوم کی فکر کیوں کر ہو گی؟

رہی سہی کسر ہیڈ ماسٹر صاحبان پوری کر دیتے ہیں، اساتذہ کو وہ اپنا ذاتی ملازم سمجھتے ہیں اور اگر کوئی اچھا استاد ، ا چھا کام کرنے والے، پڑھانے والے ہوں تو انہیں اپنے ذاتی کاموں یا محکمے کے دیگر فضول کاموں میں الجھا دیا جاتا ہے 

اس زوال کا جتنا ذمہ دار اساتذہ ہیں اتنا ہی یہ محکمہ تعلیم بھی ہے جس کے لا ابالی تشخص اور اس کے نااہل کرتا دھرتا ، وزیرِ تعلیم سے لے کر سیکرٹری، ان سے سی ای اوز اور ان سے لے کر نچلے درجے کے تمام تعلیمی افسران شامل ہیں جو پالیسی سازی کے وقت حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور محض تصوراتی پالیسیاں بنا کر تعلمی نظام کا مزید بیڑا غرق کرتے چلے جا رہے ہیں

خدارا اس قوم پر رحم کیجیے اور اپنے تمام تر فیصلوں پر نظر ثانی کیجیے

اساتذہ کو ذمہ داری خوش اسلوبی اور اپنے مقام پر آزادی سے کام کرنے دیجئے

سکولوں میں نظم و ضبط کا معیار بلند کروائیے اور کتابوں سے ہٹ کر تربیت پر زور دیجئے

معاشی زبوں حالی تو دور ہو ہی جاتی ہے مگر اخلاقی پستی جاتے جاتے جاتی ہے

والدین ، بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتے رہیں کہ ہم سب مل کر ہی ان خرافات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے اور قوم و ملت کی فکر ہمارے سینوں میں بیدار کرے کیونکہ بہتری یقیناً آسکتی ہے، اگر تمام متعلقہ فریقین اپنا قبلہ درست کر لیں

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

Twitter Handle: ‎@amfahadali1