مکہ مکرمہ:برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز عالمِ دین اور محقق علامہ عزیر شمس حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے ۔برصغیر پاک و ہند کے علمی حلقوں میں شیخ محمد عزیر شمس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف اور محقق تھے۔ اردو اور عربی زبان میں اب تک آپ کی متعدد تحقیقات اور مقالات و مضامین منظر عام پر آچکے ہیں۔شیخ عزیز شمس کی پیدایش دسمبر 1956ء میں مغربی بنگال (بندوستان) کے ضلع "مرشد آباد” کے علاقے "صالح ڈانگہ میں ہوئی جہاں آپ کے والد اور اپنے عہد کے جلیل القدر عالم مولانا شمس الحق سلفی مرحوم ایک دینی ادارے میں یہ سلسلہ تدریس مقیم تھے۔ آپ نے حصول علم کا آغاز مدرسہ فیض عام مئو سے کیا اور بعد ازاں ہندوستان کے نامور اداروں: دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار، جامعہ رحمانیہ بنارس، جامعہ سلفیہ بنارس میں طلب علم میں مشغول رہے اور 1976ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلے گئے اور چار سال تک عربی زبان و ادب میں تخصص کا کورس کیا۔ 1985ء میں جامعہ ام القری مکہ مکرمہ سے ایم فل کیا اور حالی کی تنقید اور شاعری پر عربی اثرات“کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ بعد ازیں اسی جامعہ سے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کا تہیہ کیا اور مطالعہ“ کے موضوع پر اپنا تھیسس مکمل کیا۔شیخ عزیر شمس ان تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد واپس ہندوستان چلے گئے، لیکن کچھ عرصہ بعد الله تعالی نے دوبارہ ارض حرمین میں قیام کا راستہ پیدا کر دیا، اور فروری 1999ء میں مکہ مکرمہ واپس آگئے جہاں آپ نے کئی علمی اداروں سے منسلک ہو کر کام کیا جن میں جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ، مجمع الملک فہد مدینہ منورہ اور اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ شامل ہیں۔ آپ 1999ء ہی سے مستقل طور پر مکہ مکرمہ کے مشہور علمی و تحقیقی ادارے "دار عالم الفوائد سے بھی وابستہ رہے جس میں آپ نے امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور علامہ معلمی کی بہت سی کتابوں کی تحقیق و تدوین کے فرائض سر انجام دیے ۔شیخ محمد عزیر شمس نے تحریر و نگارش کا آغاز اردو مضمون نگاری سے کیا اور اپنا پہلا مضمون "مولانا شمس الحق عظیم آبادی کے عنوان سے علامہ عظیم آبادی کی سیرت و خدمات سے متعلق لکھا۔ شیخ عزیز شمس نے امام ابن تیمیہ سمیت کئی محدثین پر کام کیا اور کثیر تعداد میں کتب تصنیف کیں ، بلاشبہ اس ’شمس’ کی وفات سے علم و تحقیق کا ایک ’آفتاب’ غروب ہوگیا.شیخ محمد عزیر شمس کی نماز جنازہ حرم مکی میں فجر کی نماز کے بعد سوموار کے دن ادا کی جائے گی، اور تدفین معلیٰ قبرستان میں ہوگی۔

Shares: