وبا
"ماں! بھوک لگی ہے،روٹی دے دو” نقاہت بھری ننھی سی آواز اس کے قریب ہی ابھری تھی۔
"ماں! تم سنتی کیوں نہیں،مجھے بھوک لگ رہی ہے،روٹی دے دو نا” آواز پھر آئی تھی مگر وہ اب بھی چپ سادھے بیٹھی تھی۔
"ماااااااں! مجھے بھوک لگ رہی ہے” اب کے آواز میں شدت ابھری تھی مگر وہ اب بھی بغیر اس آواز پر توجہ دیئے بے تاثر آنکھوں سے دروازے کو تک رہی تھی۔

"ماں! بابا ہوتے تو مجھے روٹی لاکر ضرور دیتے،بابا بہت بہادر تھے وہ فوجیوں سے بھی نہیں ڈرتے تھے،تم بالکل بھی اچھی نہیں ہو،روٹی بھی نہیں دیتی بات بھی نہیں سنتی” منہ بسورے وہ ننھی کلی شکووں کی پٹاری کھولے بیٹھی اور ماں خشک بنجر آنکھیں لیے یوں بے حس و حرکت بیٹھی تھی جیسے بہری ہی ہوگئی ہو۔

"میں جنت میں جاؤں گی نا تو اللہ کو بھی تمہاری شکایت لگاؤں گی اور بابا کو بھی بتاؤں گی تم مجھے روٹی نہیں دیتی تھی، ماں! چلو ابھی جنت چلتے ہیں بس، وہاں اللہ تعالی سے کھانا بھی لیں گے اور بابا بھی مل لیں گے۔ وہاں، چلو ماں۔۔۔اب اٹھو بھی۔ اب کی بار ننھے ننھے ہاتھوں نے اس کو جھنجھوڑا تھا اور وہ جو پتھر کی مورت بنی بے حس و حرکت بیٹھی تھی،ان جملوں نے گویا اس میں کرنٹ بھردیا تھا، خشک ویران آنکھوں میں چمک سی بھرگئی تھی ،تیر کی تیزی سے وہ اٹھی اور چادر سر پر جمائے، پانچ سالہ زاریہ کا ہاتھ تھامے دروازے کی طرف بڑھی اور کنڈی کھول کر سنسان گلی میں نکل گئی تھی۔

"اے اے ! کہاں جا رہی ہے تو؟ رک ،ارے رک ۔۔۔!” اپنے پیچھے چلاتے ہندو فوجی کی للکار کو ان سنی کرتی وہ زاریہ کو گھسیٹتی تیز قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی کہ ایک دم فضا میں تڑتڑاہٹ کی آواز گونجی تھی اور ساتھ ہی زاریہ کی معصوم چیخ بھی، وہ ٹھٹھک کر رکی تھی اور بے دم ہوکر گرتی زاریہ کو لپک کر سینے سے لگایا تھا۔
"اللہ! ” آخری ہچکی کے ساتھ یہ لفظ زاریہ کے لبوں سے ادا ہوا تھا اور زاریہ کو سینے سے چمٹائے اس کی پشت سے بہتے لہو میں اپنے تر بتر ہاتھوں کو تکتی وادئ کشمیر کی اس بلکتی ماں نے ساتھ چھوڑتے حواس کے ساتھ تڑپ کر دور ساتویں آسمان پر متمکن ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والی اس وحدہ لاشریک ذات کو شکوہ کناں نگاہوں سے تکا تھا اور عرش ہل گیا تھا۔۔۔

آناً فاناً فیصلہ ہوا تھا۔۔۔زمین والوں پر وبا چھوڑ دی گئی تھی۔۔۔
وہ آزاد تھے مگر "موت” کے نادیدہ خوف نے ان کو گھروں میں محصور کردیا تھا۔۔۔
جگمگاتے شہر اور پر رونق گلیوں میں گویا ایسا سناٹا در آیا تھا جیسے کسی عفریت نے یہاں اپنے پنجے گاڑ دیے ہوں یا کسی آسیب کی افواہ نے لوگوں کو وہاں سے دور بھگادیا ہو۔۔۔
ملاقات تو دور ایک دوسرے کی شکلیں تک دیکھنے کو ترس گئے تھے۔۔۔
اور سزا صرف یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ۔۔۔۔خدا نے اپنے گھر کے دروازے بھی ان پر بند کرلیے تھے!

Shares: