وادی کندیا کے مسائل اور چند تجاویز تحریر :عبدالمتین

0
62

ضلع کوہستان عمومی اور وادی کندیا خصوصی طور پر حکمرانوں کی وحشت ناک نا اہلی کا شکار ہے. یہ وادی زبردست جغرافیائی اہمیت و مقصدیت کی حامل ہے. اس کے حدود شمالا تانگیر، دیامر اور غذر گلگت بلتستان، شمال مغرب میں ضلع سوات کالام اور چترال کے ساتھ جبکہ جنوب مغرب میں ضلع شانگلہ اور لوئر کوہستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں. یہ وادی پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اور کچھ عرصہ قبل سب تحصیل کا درجہ پا چکی ہے. اس کی آبادی لگ بھگ ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ بھی نہایت وسیع و عریض ہے.

وادی کندیا قدرتی حسین و دلکش مناظر اور وسائل سے مالامال ہے. یہاں وسیع رقبے پر گھنے جنگلات پائے جاتے ہیں. یہ خطہ ارض نہایت شاداب اور زر خیز مٹی پر مشتمل ہے. یہاں پر پانی کے وسیع ذخائر، قیمتی پھلدار درختیں، سرسبز چراگاہیں،نایاب جنگلی حیات اور بیش قیمت معدنیات پائے جاتے ہیں. اس وادی کی آب وہوا زبردست صحت افزا اور خوشگوار ہے. یہاں کے پانی میں قدرتی مٹھاس اور ٹھنڈک پائی جاتی ہے اور یہ پانی شفاف اور زود ہضم بھی ہے. یہاں کی ہوا آلودگی سے پاک اور نہایت فرحت بخش ہے. اس وادی کو اللہ نے چار موسم عطا کئے ہیں اس لئے یہاں زرعی اجناس اور میوہ جات اپنی اصلی اور قدرتی ذائقے کے ساتھ افادیت سے لبریز ہوتے ہیں. خوشگوار سیزنز کے بدولت یہاں انسانی صحت کےلئے آئیڈل ماحول ملنے کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف اور آبی حیات کےلئے بھی موزوں ماحول میسر ہے. اسلئے یہاں کی تقریبا کل آبادی معاشی طور پر زراعت اور مال مویشیاں پالنے سے وابستہ ہے.

قدرت کے ان فراخ دلانہ عطائگیوں کے باوجود یہاں غربت افلاس، جہالت اور اندھیروں کے ڈیرے ہیں. بنیادی انسانی ضروریات و سہولیات سے لے کر سماجی و معاشرتی حقوق تک سے یہاں کے لوگ محروم ہیں. یہاں کی آبادی لاچارگی،بے بسی،تنگدستی و کسمپرسی کی تصویر بنے پھرتے ہیں. یہ لوگ اس اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے دور کی زندگی جی رہے ہیں.ان کا کوئی پرسان حال نہیں. ان کے زخموں کا کوئی مداوا نہیں. یہ اپنے سیاسی نمائندگان اور ضلعی افسران کے منہ دیکھنے کو ترس رہے ہیں. ان کی خبر گیری کےلئے کوئی زحمت نہیں اٹھاتا نہ کوئی ان کے حالت زار سے آگاہی کا متمنی ہے. یہ چاروں طرف سے فلک بوس پہاڑوں میں گھرے اس ملک کے غلام قیدی ہیں اور برس ہا برس سے اپنے ناکردہ جرموں کی سزا بھگت رہے ہیں.

اس وسیع رقبے اور آبادی کے حامل وادی کو تاحال سڑک جیسی اہم سہولت میسر نہیں. آپ قراقرم روڈ سے کندیا پل پر اتریں اور پل سے چند قدم آگے جائیں تو آپ خود کو سڑک کے بجائے پل صراط پر کھڑا پائینگے. اور آپ اگر گاڑی میں ہیں تو آپ دل ہی دل میں اللہ سے اپنے گناہوں کی سچی بخشش طلب کرینگے. آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ آپ کا آخری سفر ہے اور قدرت نے آپ کے موت کےلئے اسی مقام کا انتخاب کر رکھا تھا. ایک گھنٹے کا سفر موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے آپ 4 گھنٹوں میں طے کرینگے. صرف یہی نہیں وادی گبرال پہنچ کر اس جیسے تیسے سڑک سے بھی آپ کا ساتھ چھوٹ جائےگا اور آگے کا سفر سامان کے نیچے اپنی کمر رکھ کر پیدل اللہ اللہ خیر سلا. یہ عظیم شاہراہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہے.

وادی کندیا قدرتی جمالیاتی حسن و نعمتوں سے مالامال ہونے کے باوجود بدقسمتی کا شکار ہے. اپنی جغرافیائی دوری اور دشوار گزار اسٹرکچر کی وجہ سے ہمیشہ حکمرانوں اور ارباب اختیار کےلئے غیر پرکشش اور غیر اہم رہا ہے. حکمرانوں، اپنے سیاسی نمائیندوں اور سرکاری محکموں کی مجرمانہ غفلت و عدم توجہ کی وجہ سے یہ وادی پسماندگی، غربت، اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے. یہ وادی اور اس کے مکین بنیادی انسانی ضروریات کے فقدان سے لے کر سہولیات و ترقی کے تمام حقوق سے محروم ہیں. صحت مند اور معیاری خوراک کی قلت کا شکار ہیں. ہسپتال و ادویات نایاب ہیں. مریض معمولی نوعیت کے ٹریٹمنٹ اور ادویات کےلئے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں. لوگ جسمانی لحاظ سے کمزور اور بیماریوں کے شکار ہیں. تعلیمی معیار نہایت نچلے سطح پر ہونے کی وجہ سے لوگ ذہنی پسماندگی، اور جہالت کی تاریکیوں میں گم ہیں. زرائع آمد رفت کے شدید مشکل صورتحال سے دوچار ہیں.شعور و آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی زرخیز مٹی سے خاطر خواہ اجناس نہیں اگائے جاسکتے ہیں. کمرتوڑ محنت کے بعد مکئی کی اتنی پیداوار ممکن ہے کہ خاندان کے لئے ایک سیزن تک پیٹ پال ہوسکے. ویٹرنری کا شعبہ نہ ہونے کی وجہ سے مال مویشیاں مختلف امراض کے شکار رہتے ہیں اور قانون کی رٹ کمزور ہونے کی وجہ سے قیمتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور جنگلی حیات کا بے رحمانہ شکار جاری ہے.

میری حکمرانوں، سیاسی نمایندوں اور ضلعی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ آپ کندیا کے باسیوں کےلئے نہ سہی اپنے مفادات کےلئے وادی کندیا کی ترقی کا سوچئے. آپ اگر چاہیں تو کندیا کےلئے چند کروڑ روپے خرچ کرکے اچھی شا ہراہ تعمیر کرسکتے ہیں اور پھر اس وادی کو سیاحتی زون ڈکلئیر کریں. آپ دوچار سالوں میں خرچ شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم کمالیں گے. آپ چاہیں تو یہاں کئی منی ڈیم تعمیر کرسکتے ہیں جو ملک کی بجلی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ علاقے کی ترقی و خوشحالی کا باعث بھی بنے گی. آپ چاہیں تو زرعی شعبے میں اصلاحات کرکے وافر مقدار میں زرعی اجناس پیدا کروا سکتے ہیں پھر انہیں منڈیوں تک رسائی دے سکتے ہیں اور اس مد میں سالانہ کروڑوں کما سکتے ہیں. آپ اگر چاہیں تو یہاں کے لوگوں کی صحت اور تعلیم پر توجہ دے کر افرادی قوت پیدا کرسکتے ہیں جو ملک کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرینگے. اور آپ یہاں کے معدنیات،وسائل اور خوبصورتی کو معمولی محنت و رقم کے عوض کیش کراسکتے ہیں. بس آپ کے معمولی توجہ اور دلچسپی کی ضرورت ہے.

میری کندیا مشران و عوام سے گزارش ہے کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اس ملک کے دولت اور وسائل پر ہم برابری کا حق رکھتے ہیں. آپ اپنے حقوق کےلئے متحد ہوجائیں، ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر نا انصافیوں کے خلاف مشترکہ آواز بلند کریں. آپ کی جدوجہد پرامن ہونی چاہئیے کیونکہ نہ آپ ریاست کے خلاف لڑ سکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی فائیدہ ہوگا. علاقائی تعصب، نسلی امتیاز، قومیت، اور ذاتی رنجشوں میں جکڑے رہوگے تو یہ مسائل اور محرومیاں ہمیشہ آپ کا مقدر بنے رہے گی. ابھی وقت ہے اس دلدل سے باہر آنے کا بعد میں صرف تاسف رہے گا.‎

Leave a reply