دعوؤں، وعدوں اور خوابوں سے کام نہیں چلنا، تحریر: نوید شیخ

0
44

عمران خان کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ لوگوں کو گبھرانا نہیں کا مشورہ دینے والے خان صاحب خود بہت گھبرا گئے ہیں۔ ان کے حالیہ بیانات احساس شکست کا پتہ دیتے ہیں مگر وہ ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سڑکوں پر آئے تو پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ سڑکوں پر آنے کے لئے آپ کے پلے بھی کچھ ہونا چائیے جو وہ اپنی ناقص کارکردگی کے سبب کھوچکے ہیں۔

۔ موجودہ حکومتی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو کہیں خیر نظر نہیں آتی۔ آمدن کے لحاظ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید کم سے کم تر ہو رہی ہے۔ ۔ مگر عمران خان کے اردگرد خوشامدیوں کے ٹولے اکٹھے ہیں جو انہیں یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی بنائی ہوئی ریاست مدینہ میں لنگر خانے کھلے ہیں اور غریب کو روٹی مل رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو جو حکمران ان خوشامدیوں کے جھانسے میں آیا اس کا انجام بھیانک ہی ہوا ۔ ۔ پہلے سب سے بڑے جھوٹ سے شروع کرتے ہیں کہ حکومت نے جی ڈی پی گروتھ 5.3 ظاہر کی ھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ گروتھ ریٹ واقعی ٹھیک اور حقیقت پر مبنی ھے تو پھر اس کا فائدہ عام شہری کو کیوں حاصل نہیں ہورہا۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش جو نصف صدی پہلے ہم سےعلیحدہ ہوگیا تھا آج وہ بھی ہم سے بہت آگے ھے اس کا ایک ٹکا ہمارے
2.06 روپے بنتے ہیں یعنی اب ہم ایک ٹکے کے بھی نہیں رہے- – جیسے یہ پہلے کہتے تھے کہ نواز شریف دور میں اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پر روپے کو مضببوط رکھ کر مارکیٹ میں ڈالر کو استحکام پر رکھا ہوا ہے اسی طرح آج کی جی ڈی پی گروتھ بھی مصنوعی ہی لگتی ھے۔

۔ کیونکہ دیکھیں کوئی ماہرین معیشت ایسا نہیں جو یہ نہ کہتا ہو کہ غیر ملکی قرضوں کے سہارے کسی بھی ملک کی معیشت نہ تو مضبوط ہو سکتی ہے نہ عوام خوشحال ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو پی ٹی آئی نے ان تین سالوں میں ریکارڈ غیر ملکی قرضے حاصل کئے ہیں ۔ ۔ لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کے ترجمانوں، وزیر خزانہ اور مالیاتی مشیروں کی طرف سے ایسے ایسے خوش کن بیانات اور دعوے تسلسل سے آ رہے ہیں کہ جیسے اس وقت ملک میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے اور عوام حکومت کی مثالی کارکردگی کی وجہ سے شادیانے بجا رہے ہیں۔ ۔ عمران خان کو پتہ نہیں یہ کون اعداد وشمار دیتا ہے جو وہ ہر جگہ یہ راگ الاپتے پھرتے ہیں کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کی آمدن میں 73 فیصد اضافہ ہوا اور انہیں 1400 ارب روپے کی اضافی آمدنی ملی ہے۔ اگر واقعی ایسی صورتحال ہوتی تو ملک میں ہر طرف کسانوں کی احتجاجی ریلیاں نہ ہوتیں۔ دھرنے نہ ہوتے ۔ ۔ اسی طرح عمران خان کا ماننا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے منافع میں 40 سے 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ہم ان سے کہیں گے کہ وہ ورکروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کریں ۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ ہمارے کارپوریٹ سیکٹر میں بوم آیا ہوا ہے جبکہ کنسٹرکشن انڈسٹری اور اس سے منسلک 30 صنعتیں ترقی کر رہی ہے ملک میں لاکھوں گھر بن رہے ہیں عوام نے گھروں کی تعمیر کے لیے بنکوں سے 290 ارب روپے کے قرضے مانگے تھے اب تک انہیں 20 ارب روپے کے قرضے جاری ہو چکے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ سب رو رہے ہیں ۔ کوئی وزیراعظم کے نام اخباروں میں اپیلیں چھپوا رہا ہے تو کوئی سٹرکوں پر نکل کر احتجاج کر رہا ہے کوئی ہر دوسرے دن پریس کانفرنسیں کرکے حکومت کو کوس رہا ہے ۔ ۔ مہنگائی کے بارے میں تو عمران خان اکثر فرماتے ہیں کہ اس خطے میں سب سے کم مہنگائی پاکستان میں ہے حالانکہ ہمارے عوام ریکارڈ توڑ مہنگائی کی وجہ بے حد پریشان ہیں۔

۔ سچائی یہ ہے کہ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین سطح کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جبکہ حکومت پاکستان کا اپنا ادارہ شماریات ہر ہفتے مہنگائی کے بارے اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے۔ وہ رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ۔ پھر بھی عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت مضبوط سے مضبوط ہو رہی ہے اور اوورسیز پاکستانیوں سے 30 ارب ڈالر اور برآمدات سے 31 ارب ڈالر حاصل ہوئے اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھے ہیں مگر حکومت یہ نہیں بتاتی کہ اس کے دور میں پاکستان نے ریکارڈ بیرونی قرضے بھی لیے ہیں اور آئی ایم ایف کی ڈِکٹیشن پر انوکھا منی بجٹ بھی پاس کروایا ہے اور اسٹیٹ بنک کے بارے میں قانون سازی کی جس پر ہر کوئی حکومت کو پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہا ہے۔ مگر عمران خان سمیت نو رتنوں کا ماننا ہے کہ سب اچھا ہے ۔ ۔ ویسے تو پی ٹی آئی والے معیشت کی تباہی سمیت کرپشن کے تمام الزامات سابقہ حکومتوں پر لگاتے ہیں۔ لیکن عوام ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے تین سالہ دور حکومت میں بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہر شرط ماننے کے سوا کیا ہی کیا ہے؟ ۔ کیا حکومت نے گردشی قرضوں اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے کچھ کیا ہے؟ ۔ فیول ایڈجسٹمنٹ ، ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سمیت کئی قسم کے ٹیکس لئے جا رہے ہیں جو بڑھتے بڑھتے بجلی کی اصل قیمت کے تقریباً برابر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایل این جی نہ لانے کی وجہ سے ہمارے پاور ہائوسز مہنگے ڈیزل پر چل رہے ہیں۔۔ پیٹرول کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ گزشتہ دور کی حکومتیں منصوعی ٹیکس لگا کر زائد قیمتیں وصول کرتی ہیں ۔ اب شاید نئے پاکستان میں پیٹرول پر صرف ٹیکس ہی وصول کیا جا تا ہے ۔۔ حکمران نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سب سے مسائل ہی بڑھیں گے۔ ۔ سچ یہ ہے کہ مارکیٹیں سنسان ہیں ۔ گاہک غائب ہیں ۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بند پڑا ہے ۔ پرچیوں پر کاروبار ہو رہا ہے ۔ لوگ پیسہ روک کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کسی کو حکومتی پالیسوں پر اعتماد نہیں ہے ۔ ایک کروڑ نوکریاں تو دور کی بات الٹا بے روز گاری میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ ۔ یہ کرپشن ختم کرنے کے نعرے پر آئے تھے مگر مکمل ناکام ہیں۔ کرپشن پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں، وہ پہلے سے زیادہ ہے۔ان کے خیال میں ان کے دور میں کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ ۔ سچ یہ ہے کہ سکینڈل ہمیشہ حکومت جانے کے بعد آتے ہیں اور یہ زیادہ دن کی بات نہیں۔ کیونکہ ان کی نااہلیوں اور کرپشن کی ایک لمبی داستان ہے۔ ۔ دراصل عمران خان نے جیسے 92 کے ورلڈ کپ میں ایک ٹیم بنائی تھی ویسے اپنی حکومت کیلئے نہیں بنا سکے۔ کیونکہ یہاں انہوں نے میرٹ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا اور یہی بات بحیثیت وزیرِ اعظم اُنکی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔

۔ اس میں کوئی برائی نہیں کہ عمران خان اپنے دوستوں یاروں کو ضرور ایڈجسٹ کریں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی رکھیں جو کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن عمران خان پرانے پاکستان کے معماروں سے ہی نیا پاکستان تعمیر کروانا چاہتے ہیں۔ ۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان کے وزیر مشیر گزشتہ حکومتوں میں بھی اہم ترین عہدوں پر کام کر چکے ہیں ۔ اس لیے وہ لوگ حق بجانب ہیں کہ یہ اتنے ہی قابل ہوتے تو پاکستان اس حال کو پہنچتا ہی کیوں۔۔ اس وقت عوام کو سیاست کی تماشا گری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ انہیں تو یہ پتا ہے کہ وہ عمران خان کی حکمرانی میں اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے قابل بھی نہیں رہے۔۔ کیونکہ پاکستان اشرافیہ کے لئے کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں ۔ یہ واحد ملک ھے جہاں
15-20 ہزار ماہوار کمانے والا تو ادویات، ٹیکس اور بلز سمیت تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کا پابند ھے لیکن لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے عوام کے خادموں اور ملازموں کے لئے پیٹرول بلز اور دیگر تمام سہولیات زندگی مفت ہیں-

۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس وقت اصولی سیاست کے بجائے وصولی سیاست ہو رہی ہے۔ کیونکہ اصولی طور پر تو عمران خان کو اپنے اس بیان کی لاج رکھنی چاہیے تھی کہ میں کسی کی بیساکھیوں کے سہارے ہرگز اقتدار میں نہیں آئوں گا اور مجھے حکومت کی تشکیل کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہوئی تو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا قبول کرلوں گا پر اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک نہیں ہونگا۔ مگرعمران خان نے اصولی سیاست کے نعرے لگاتے ہوئے اقتدار کے حصول کیلئے ہر وہ کام کیا جس کا انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نہیں کریں گے ۔ یوں دیکھا جائے تو عمران خان کی اقتدار کی ہوس نے تبدیلی جنازہ نکال دیا ہے ۔ ۔ سیاست میں نعرے لگانا ، دعوے کرنے ، باتیں بنانا بھی ضروری ہے مگر کام کرنا ایک فن ہے ۔ اور یہ ثابت ہو چکا ہے تحریک انصاف میں باتیں کرنے والے زیادہ ہیں اور کام کرنے والے ہیں ہی نہیں ۔ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ادوار میں کرپشن ہوئی ۔ نواز شریف سے زرداری تک ، اسفند یار ولی سے محمود اچکزئی تک ، فضل الرحمان سے شیر پاؤ تک ، سب پر کرپشن کے سینکڑوں الزامات ہیں ۔ مگر پی ٹی آئی بھی کسی بھی لحاظ سے ان سے کم نہیں ۔ اسلیے عوام کی بس ہو چکی ہے ۔۔ حالت یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے وہ ووٹر اور سپورٹر جو ان کی خاطر مرنے کو تیار رہتے تھے ۔ وہ بھی اب حکومتی کارکردگی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ کیوں چوروں ، ڈاکوؤں، لٹیروں کا پرانا پاکستان اس نئے پاکستان سے بہتر تھا۔۔ اس لیے اب عمران خان کوبہت جلد کچھ عملی طور پر کر کے دکھانا ہو گا ۔ مزید ان دعوؤں، وعدوں اور خوابوں سے کام نہیں چلنا ۔ کیونکہ عمران خان سے حساب مانگنے اور پی ٹی آئی کا احتساب کرنے کا وقت آن پہنچا ہے

Leave a reply