وقت ضائع کرنے سے بچیں، مگر کیسے ؟
عمر یوسف
آپ دیکھیں گے کہ جونہی میٹرک کے امتحانات کا اعلان کیا جاتا ہے یا دوسرے امتحانات کا اعلان کیا جاتا ہے تو امتحان میں شرکت کرنے والے امیدوار ایک دم چست ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔ وہ فضولیات چھوڑ کر اپنی ساری طاقت اور انرجی اپنی تیاری پر لگاتے ہیں ۔۔۔ ناکامی کا ڈر اور رسوائی سے بچنے کے لیے وہ اکثر اوقات اپنی تیاری پر زائد وقت بھی لگانا بھی منظور کرلیتے ہیں ۔۔۔ پھر نظر آتا ہے کہ آوارا گردی کرنے والے مصروف ہوگئے ہیں ۔۔۔۔ سستی کرنے والے چست ہوگئے ہیں ۔۔۔ فضولیات میں مبتلاء کارآمدات میں مگن ہیں ۔۔۔ ان کی زندگی میں نظم و ضبط آجاتا ہے ۔۔۔ ان کے اوقات باوقار گزرتے ہیں ۔۔۔ اور وہ سلجھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔۔۔
اللہ رب العزت نے بھی انسان کو پیدا کرنے بعد اسے یہ شعور عطا فرمایا کہ جلد ہی تمہارا حساب شروع ہوجائے گا ۔۔۔ دنیا کی زندگی میں جو تیاری کی اس کا پرچہ پہلے مرحلے میں قبر کے ایگزام سینٹر میں دینا اور دوسرے مرحلے میں قیامت کے دن گرینڈ ایگزام کی صورت دینا ہے ۔۔۔۔
جو اس امتحان کی فکر شروع کردیتے ہیں ان کی زندگی میں بدلاو آجاتا ہے ۔۔۔
آپ دیکھیں گے کہ جس طرح دنیا کی امتحان کی تیاری کا نتیجہ ایک باوقار زندگی کی صورت نکلتا ہے اسی طرح آخرت کی تیاری کا نتیجہ بھی باوقار زندگی کی صورت نکلتا ہے ۔۔۔ دنیاوی امتحان کا ڈر وقتی نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اور اخروی امتحان کا تصور دائمی اور مستقل باوقار زندگی عطا کرتا ہے ۔۔۔
جو بندے کو آخرت میں جواب دہی کا پختہ ایمان ہوگا ۔۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ دنیاوی فضولیات میں مبتلاء ہوجائے ۔۔۔۔ وہ کبھی بھی فانی دنیا کے عارضی ناجائز فائدے کے لیے اخروی زندگی کا سودا نہیں کرے گا ۔۔۔۔ وہ اخروی امتحان میں کامیابی کی جستجو میں مشکوک و مباح چیزوں کو بھی چھوڑ دے گا ۔۔۔۔
اسلام نے اسی لیے اخروی امتحان کے پختہ تصور کو ایمان کا جزء قرار دیا ہے ۔۔۔ اور بارہا اس کی یاددہانی کروائی ہے ۔۔۔ مسلم رہنماء و علماء بھی شدو مد سے فکر آخرت پر درس وتقریر کرتے ہیں تاکہ امتحان کا یہ تصور انسان کو دنیاوی لہو و لعب جیسی فضولیات سے بچاتے ہوئے ایک با مقصد انسان بنائے ۔۔۔۔
آپ کو وہی لوگ گناہوں میں مبتلاء نظر آئیں گے جن کا آخرت پر ایمان انتہائی کمزور یا سطحی لیول کا ہے ۔۔۔۔ ناصرف کامیاب زندگی بلکہ کامیاب آخرت کے لیے اسلام کا تصور امتحان یعنی فکر آخرت پر پختہ ایمان ہونا لازمی اور ضروری ہے ۔