لاہور:کیا علی سدپارا قتل ہوئے یا سانحے کا شکار۔۔؟اس حوالے سے سنیئر صحافی مبشرلقمان نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی کوہ پیما کو اپنے Dream Mountainپر چڑھنے کے لیئے پچاس ہزار ڈالر یعنی اسی لاکھ روپے تک کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کےباوجود وہ بیک وقت نہ صرف Summit کے لیئے لڑ رہا ہوتا ہے بلکہ اپنی زندگی کے لیئے بھی لڑ رہا ہوتا ہے۔علی سد پارا کے معاملے پر سوشل میڈیا پر جس اخلاقی بحران کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ بحثیت قوم ہمارے لیئے باعث شرم ہے۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ بدقسمتی سےبحثیت قوم ہم اتنی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ رمضان آئے تو ہم نے قیمتیں بڑھا کر ذخیرہ اندوزی ہوتی ہیں۔اور اگر کوئی قومی سانحہ ہو جائے اور عوام حقیقت جاننے کی کوشش کر رہی ہو تو ہم فورا جھوٹ کا بازار گرم کر کے اپنی دکان چمکانے لگتے ہیں۔ حساس سے حساس موقع پر بھی چیزوں کوExploit کرنے سے باز نہیں آتے۔ اور اگر آپ کسی سے بھی پوچیں کے ہمارے زوال کی وجوہات کیا ہیں کیوں پاکستان ترقی نہیں کر رہا تو سارے کا سارا ملبہ یا تو حکمرانوں پر ڈال دیا جائے گا یا کوئی اور وجوہات نکال لی جائیں گی۔ لیکن کوئی بھی اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے گا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ محمد علی سد پارا کے معاملے پر تو تمام کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دیئے گئے، ہر روز نئی سے نئی Conspiracy theoryصرف اس لیئے نکالی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ ویوز حاصل کیئے جائیں۔ کبھی سد پارا کی موت کو قتل قرار دے دیا گیا تو کبھی اسے نیپالی کوہ پیماوں کی سازش اور ایک سے ایک نام نہاد تجزیہ کار اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیئے اپنے من گھڑت ثبوتوں کی ڈھیریاں لگائے بیٹھے تھے۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ علی سدپارا کے بارے میں جہاں عوام آج بھی سچ جاننا چاہتی ہے وہاں علی سد پارا کے اہل خانہ اج بھی علی سدپارا کے بارے میں غلط خبروں سے پردہ اٹھانا چاہ رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ علی سدپارا، جان سنوری اور جے پی موہر کے ساتھ کیا ہوا یہ صرف انہیں ہی پتا ہے۔ جبکہ وہاں پر موجود کوہ پیما اور ساجد سدپارا کے بیانات اور معلومات سے کڑیاں ملا کر کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو ان تمام معلومات کی روشنی میں کسی Logical conclusionتک پہنچنے میں مدد کریں گے جبکہ ساجد سدپارا نے کچھ نئی باتوں سے پردہ اٹھایا ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں گے، ہماری ٹیم ساجد سدپارا سے رابطے میں ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ساجد سدپارا کی زبانی آپ کو ان سوالات کے جواب سنوائیں جو آپ سننا چاہتے ہیں۔ساجد سدپارا نے دوہزار انیس میں پہلی دفعہ اپنے والد کے ساتھ کے ٹو سر کر کے Youngest person کا ریکارڈ کائم کیا تھا
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ جبکہ ان سردیوں میں بائیس سالہ ساجد دوبارہ اپنے والد علی سدپارا کے ساتھ سردیوں میں کے ٹو سر کرنے کا ریکارڈ بنانے جا رہا تھا لیکن حالات نے اسے موقع نہیں دیا۔ اور اسے آٹھ ہزار دو سو میٹر کی بلندی سے اپنے والد کو چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ جب ساجد واپس آیا تو اسے نہ صرف اپنے دکھ سے نبٹنا تھا بلکہ اپنے خاندان کے دکھ کو بھی شیئر کرنا تھا۔ جبکہ میڈیا پر اسے منفی پراپیگنڈا کو بھی روکنا تھا۔ ایک طرف عزت، عوام کی پزیرائی اور میڈیا اس کی اسٹوری سننے کے لیئے بے چین تھا وہیں جعلی اکاونٹس سے Technical detailsکوMisinterpret کیا جا رہا تھا اور غلط ٹائم، غلط جگہ غلط Altitudeسمیت اور کئی سنگین غلطیاں کی جا رہی تھی۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر بی بی سی جیسے نامور ادارے نے یہ لکھ دیا کہ علی سدپارا ساجد سدپارا کی طبعیت خراب ہونے کے باوجود اسے ساتھ اوپر لے کر جانا چاہتا تھا لیکن ساجد سدپارا نہیں گیا۔ جبکہ ساجد سدپارا کے مطابق یہ بات الٹی ہے اور اس کے والد نے اسے واپس جانے کے لیئے کہا تھا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہپندرہ جنوری کو جان سنوری اور علی سدپارا کو کیمپ ٹومیں دوسرا دن تھا، انہوں نے کیمپ تھری میں اوپرجانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ لیکن ایک اچھے موسم کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط ہوا کی بھی Forcast تھی۔ جس نے انہیں اوپر جانے سے Discourageکیا۔ انہوں نے ساجد کو کیمپ تھری میں کچھ سامان لینے کے لیئے بھیجا۔جب ساجدLower camp 3پر سات ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچا تو وہاں اس کی ملاقاتSergi Mingote and JP Mohrسے ہوئی
مبشرلقمان کہتے ہیں کہSergi Mingoteنے ساجد سے پوچھا کہ کیا تم لوگ نیپالی ٹیم کے ساتھ Summit کرنے جا رہے ہو۔؟ وہ کل صبح نکل رہے ہیں۔ جان سنوری اور علی سدپارا کو نیپالی ٹیم کے حوالے سے کچھ نہیں پتا تھا اور انہیں یہ سب کچھ اس وقت پتا چلا جب ساجد نیچے کیمپ ٹو میں پہنچا جہاں وہ Black pyramidکے نیچےاس کا انتظار کر رہے تھے۔ اور وہ جگہ انہیں جوائن کرنے کے لیئے بہت دور تھی۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اسی دن Sergi Mingote نے جو Japanese Camp 3پر تھا۔۔ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ دو مضبوط ٹیم Nirmal purja’s اورMingma G’sایک کیمپ اوپر ہیں اور کل صبح اچھے موسم کی پیشنگوئی کے بعد کے ٹو سر کر نے کی کوشش کریں گے، اس پوسٹ میں اس نے ساجد سے ملاقات کا ذکر بھی کیا۔ جو جان سنوری کے Gear کیمپ تھری لے کر جا رہا تھا۔ اس پوسٹ کے آخر میں اس نے دونوں ٹیموں کو All the best wish کیا اور اس کے بعد Sergi Mingoteکی کوئی پوسٹ نہیں آئی کیونکہ سولہ جنوری کو واپس جاتے ہوئے وہ حادثے کا شکار ہو گیا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہفروری کے شروع میں تقریبا چالیس کے قریب لوگ سمٹ کرنے کے لیئے پہنچے کیونکہ پانچ فروری کو ایک short weather window predictedتھی۔ سمٹ مکمل کرنے کے چانسز بہت کم تھے اس لیئے کافی لوگ کیمپ ون سے واپس چلے گئے جبکے 20 کے قریب لوگ، کچھ کوہ پیما یہ تعداد پچیس بتا رہے ہیں، کیمپ تھری پر 4 فروری کو دوپہر تین سے رات آٹھ بجے تک پہنچے۔ سب سے پہلےColin O’Bradyپہنچا اس کے بعد Jp moher اس کے پاس بھی چھوٹا دو لوگوں کا ٹینٹ تھا۔ علی سد پارا کے پاس بھی ایک ٹینٹ تھا جس میں جان سنوری اور ساجد سد پارا نے رکنا تھا۔ جبکہ ایک اور Sherpa کے پاس صرف ایک اور ٹینٹ تھا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ جان سنوری اور علی سدپارا کو تین اور لوگوں کے ساتھ اپنا ٹینٹ شیئر کرنا پڑگیا جس کی وجہ سے وہ اس چھوٹے سے ٹینٹ میں نہ لیٹنے کے قابل تھے نہ جرابیں تبدیل کرنے کے۔ نہ کھانے کے اور نہ ہی پانی کے لیئے برف کو پگھلانے کے قابل تھے۔ اور وہ اپنی فائنل push کے لیے آرام بھی نہ کر سکے، جبکہ انہیں اپنے طے شدہ پلان کے مطابق نکلنے میں بھی دیر ہو گئی۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ساجد سدپارا اور راو احمد کے مطابق ٹیم میں سب سے slow جان سنوری تھا وہ رات کو ساڑھے گیارہ بجے نکلا جبکہ علی ہمیشہ سے پہاڑون پر تیزی سے حرکت کرتا تھا وہ رات کو دو بجے نکلا۔ دونوں سپلیمنٹری آکسیجن استعمال کر رہے تھے۔ اور دونوں کے پاس دو دو بوتلیں تھی۔ ساجد رات کو اپنے والد سے دو گھنٹے پہلے نکلا وہ اکسیجن استعمال نہیں کر رہا تھا۔ وہ بغیر اکسیجن کے کم عمر ترین کوہ پیما کے طور پر کے ٹو سردیوں میں سر کرنے کا ریکارڈ بنانا چاہتا تھا۔ ان تک جو سب سے کم عمر کوہ پیماGelje Sherpaجس نے کے ٹو سردیوں میں سر کیا ہے ساجد سے پانچ سال بڑا ہے۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہساجد کے پاس دو اکسیجن کی بوتل تھی ایک اکسیجن کی بوتل اپنے لیئے ایمرجنسی کی صورت میں جبکہ دوسری جان سنوری کے لیئے ایکسٹرا بوتل تھی۔راستے میں ساجد کوSlovenianکوہ پیماTomaz rotarملا جو جان سنوری کے ساتھ مل کر رسیاں لگانے کا کام کرتا رہا تھا لیکن وہ راستے سے واپس آگیا کیونکہ اس کے مطابق سات ہزار آٹھ سو میٹر کی اونچائی پر ڈھائی میٹر چوڑیCrevasseاس کے لیئے کراس کرنا ممکن نہیں تھا۔اسیCrevasseکے کنارے پر علی سدپارا کو ساجد بھی مل گیا اور وہیں پر جے پی موہر اور جان سنوری بھی تھے۔ ۔ ساجد کے بقول یہ بہت خوفناک اور ڈراونا تھا۔ انہوں نے اکھٹے اس کو کراس کیا اور اس کے لیئے نہ رسی باندھی اور نہ ہی استعمال کی۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ یہ کہانی کا سب سے Confusing part ہے، ساجد کے مطابق ان تینوں کو اس Crevasseکے بارے میں پتا تھا کیونکہ انہیں نیپالی کوہ پیماMingma Gنے اپنی سمٹ کے بعد بتایا تھا کہ اسے کراس کرنے میں ناکامی کے بعد وہ تقریبا دوبارہ کیمپ تھری کے پاس آکر دوسرے روٹ پر گئے تھے اور جو راستہ انہیں ملا تھا وہاںCrevasseکے بعد بہت ہی Steep ramp تھا۔Mingma Gنے یہ بھی بتایا تھا کہ کیمپ تھری کے ڈھائی سو سے تین سو میٹر تک رسی نہیں ہے اور اس کے بعد شروع ہوتی ہے جو چوٹی تک جاتی ہے۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ساجد کے مطابق اسکی زیادہ تر معلومات جو 8200 meterکی بلندی اور صبح دس بجے کے ہیں پر یہ شک گزرتا ہے کہ شائد وہ خواب تو نہیں تھے۔ کہ وہ اپنے والد کو Bottleneckکے ٹاپسےTraverseشروع کرتے ہوئے اور اس کی طرف پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ساجد نے جہاں اپنے والد کو چھوڑا وہاں بوٹل نیک کے علاقے میں رسی شروع ہو گئی تھی۔ اکسیجن کے مسلئی کے بعد جب وہ واپس کیمپ تھری تک پہنچا تو اس وقت شام کے4 یا 5 بج چکے تھے اور اس نے واپسی پر پھر Crevasseکو کراس کیا اور بڑی مشکل سے اس کا ایک پاوں ہی کنارے پر پہنچ پایا۔ اسے یہ بھی نہیں پتا کہ اسے کیمپ تھری پہنچنے میں اتنا ٹائم کیوں لگا۔ جبکہ شام سات بجے طوفان شروع ہو چکا تھا رات کو گیارہ بچے ساجد دوبارہ اپنے والد اور دوسرے ساتھیوں کے Headlampsدیکھنے لکلا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ساجد کے مطابق اس کا خیال نہیں ہے کہ وہ بیمار ہو گئے ہوں کیونکہ وہ ہشاش بشاش اور بہتر نظر آ رہے تھے۔ ضرور ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا Bottleneckکے شروع سے ٹاپ پر پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں اس حساب سے دوپہر تین بجے انہیں کے ٹو کے ٹاپ پر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ یہ بات ان کے ساتھ طے تھی کہ وہ ٹاپ پر پہنچ کر کال کریں گے لیکن وہ نہیں آئی نہ ہی ان کا کوئ ٹریک یا ایس ایم ایس آیا۔ ان چند سوال جو انتہائی اہم ہیں اور اس کی وجہ سے ہم کسی اہم نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ کے ٹو کی بلندی 8611 میٹرہے جبکہ ساجد8200 میٹر سے صبح دس بجے واپس لوٹ آیا اور طوفان سے صرف دو گھنٹے پہلے کیمپ تھری پہنچا۔ یعنی چھ گھنٹے میں ۔۔ کیا اس طوفان کی calculationکر نے میں غلطی ہوئی کیونکہ اگر علی سدپارا نے دوپہر کے تین بجے بھی چوٹی پر پہنچنا تھا تو کیا وہ اگلے تین گھنٹے میں واپس کیمپ تھری پہنچ سکتے تھے۔؟
مبشرلقمان کہتے ہیں کہایک بات کا بہت چرچا ہے کہ نیپالی کوہ پیماوں نے رسی کاٹ دی تاکہ کوئی اور یہ چوٹی سر نہ کر سکے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب کیمپ تھری پر دو کیمپ سرد ہواوں اور شدید ٹھنڈ کی وجہ سے برف میں کھو گئے جس کی وجہ سے ٹینٹوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تو کیا رسیوں کے برف میں ڈھکنے کے امکانات نہیں تھے۔
جان سنوری گزشتہ سال بھی سردیوں میں کے ٹو بغیر سر کیئے واپس گئے تھے، اس سال وہ دوبارہ ناکام نہیں ہونا چاہتے تھے اوپر سے نیپالی کوہ پیما اس سے بعد میں آئے اور اسے سر کر کے چلے گئے۔ کیا یہ ان حالات میں جان سنوری اور علی سدپارا سے خطرات کو نظر انداز کرنے کا غلط فیصلہ نہیں ہوا۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہکئی لوگوں کے مطابق کے ٹو سمٹ پر چالیس لوگوں کے اکھٹے ہونے سے وہ سرکس بن گیا تھا جس سے Professional کوہ پیماوں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور ایک دم سے بیس لوگ اکھٹے بیس کیمپ فور پر پہنچ گئے اور آرام کرنے کا بھی موقع نہیں ملا کیا یہ بھی سانحہ علی سدپارا کی ایک وجہ ہے۔؟اس سیزن میں چھ کوہ پیما نے اپنی جان دی جس مین سے تین اوپر جاتے ہوئے اور تین مہم کو ادھوری چھوڑ کر واپس آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے تو کیا خطرات مول نہ لینے سے ان کی جان بچ سکتی تھی۔۔؟
مبشرلقمان کہتے ہیں کہکوہ پیمائی ایک جان لیوا کام ہے اور ہر کوہ پیما کو پتا ہوتا ہے کہ ا سمین ان کی جان جانے کے بہت زیادہ امکانات ہیں لیکن بغیر رسک لیئے کامیابی ممکن نہیں علی سدپارا اگر یہ رسک نہ لیتے تو کیا وہ چودہ میں سے آٹھ چوٹیاں سر کر پاتے۔ ؟ سوچنے کی بات ہے آئندہ تک کے لیئے اجازت دیجئے اللہ حافظ