وطن کی مٹی گواہ رہنا تحریر: فضیلت اجالہ

 

6ستمبر 1965 یہ ریڈیو پاکستان ہے

صدر پاکستان ایوب خان پاکستانی قوم سے خطاب کریں گے 

میرے ہم وطنوں دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے ،بھارت نے بزدلی کی پیشہ ورانہ مثال قائم رکھتے ہوئے پاکستان پر لاہور کی جانب سے حملہ کردیا ہے , اسی اعلان کے ساتھ ہمارے شہیدوں کی لازوال قربانیوں، غازیوں کی بے مثال جرات اور ہمارے اجداد کی درخشاء وفاؤ سے مزین ایک نئی داستان کا آغاز ہوتا ہے ۔

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا   

           ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سر خرو کر کے 

وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ ابھی 1947 کی لازوال قربانیوں کے زخم مندمل بھی نا ہوئے تھے کہ بھارت نے مزموم مقاصد لیے راہ اہل وفا کے مسافروں کی جراءت کو پھر سے للکارا لیکن شاید دشمن یہ بھول بیٹھا تھا کہ 

   ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم  

  رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن 

اے سرزمین چمن تو گواہ رہنا کہ اس دس کروڑ آبادی والے پاکستان کا ہر بچہ، بوڑھا اور جوان جن کے دھڑکن قلبی میں لاالہ اللہ اور محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی تھی اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک دشمن کی توپوں کے حوصلے مسمار نہ کر دیے۔

اے خاک وطن تو گواہ رہنا کہ تیرے دفاع اور بقا کا عزم لیے اس قوم کا ہر جوان دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے اپنے سینوں سے ایسی دیوار تانے کھڑا ہوا کہ سرزمین پاک و ہند انکی ہیبت و حمیت سے لرزنے لگی اور عزم و جرات کی وہ سنہری داستان رقم ہوئی جو آج بھی جبیں وطن کا جھومر بن کر آنے والی نسلوں کیلیے باعث فخر اور وفائے وطن کا کبھی نا بھلایا جانے والہ درس دیتی ہے۔

 ایک طرف یوم دفاع کا ذکر دلوں کو گرماتا ہے اور ایمان کو تازہ کرتا ہے تو دوسری طرف مٹی پہ جان وارنے والوں کی قربانیوں کی داستاں آنکھوں کو سمندر کرتی ہے۔ 

6 ستمبر 1965 کو رات کے اندھیرے میں بھارت نے میجر جنرل نرنجن کی قیادت میں ٹینکوں اور توپ خانوں کے 25 ویں ڈویژن کی مدد سے تین اطراف سے لاہور پر حملہ کیا۔ دشمن یہ سوچ کر آیا تھا کہ وہ پاکستانیوں کے سونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن وہ بھول بیٹھا تھا کہ اس دھرتی کے سپوت وطن کے دفاع کی خاطر نیندیں قربان کیے بیٹھے ہیں۔ بھارتی جرنیلوں نے لاہور میں ناشتہ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ پانچ دریاؤں کی اس دھرتی کے دل لاہور پہ حملہ کرکے انہوں نے اپنی موت کو آواز دی ہے اور اس دھرتی کے سپوت انہیں جلدہی ستارے دکھانے والے ہیں۔ 

دشمن کے مذموم عزائم کو کچلنے کا پہلا قدم لاہور کی طرف اس کی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ جس کے لیے ستلج رینجرز کے جوانوں نے نہ صرف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا بلکہ بی آر بی کینال پل کو بھی تباہ کر دیا اور دشمن کے لیے لاہور تک پہنچنا ناممکن بنا دیا۔

  اے خاک ارض پاک گواہ رہنا کہ تیرے سبز ہلالی پہ ان مجاہدین وطن کے لہو کے چھینٹے اسے مزید تابناک بناتے ہیں جنہوں نے تیرےدفاع کی خاطر سینوں پہ بم باندھے دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اپنی جان کا نزارانہ دیتے ہوئے چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کے قبرستان میں تبدیل کیا۔

اے مادر مہرباں گواہ رہنا کہ ہم نے گلشن کے تحفظ کی خاطر جم خانہ لاہور میں چائے پینے والوں کی خواہش کو میجر عزیز بھٹی بن کر مٹی میں ملا یا تو کبھی راشد منہاس کا روپ لیے دشمن کے طیاروں کا رخ موڑ کر انکے ناپاک ارادوں کو زمیں بوس کیا۔

 اے زمینِ وطن گواہ رہنا کہ کہیں ایم ایم عالم کے پر لیے ہوا کی تیزی س ایک ہی منٹ میں دشمن کے پانچ طیاروں کو سرگودھا کے مقام پر دھول چٹائی تو کہیں سپاہی مقبول حسین کی قبا پہنے دشمن کی بربریت کا سامنا کیا لیکن تیرے تقدس پہ حرف نہیں آنے دیا۔

    

اے سرزمین پاکستان گواہ رہنا کہ جب تیرے جانباز اور شہباز زمین و فلک پہ اپنی بہادری کی داستاں لکھ رہے تھے وہیں تیرے تیراکوں نے بھی تجھ سے وفا میں کمی نہیں آنے دی ،پاک بحریہ نے دفاعی جنگ لڑنے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اور صرف ساڑھے چار منٹ میں، 50، 50 راؤنڈ فائر کیے، مقررہ ہدف کو اس سفاکی و دلیری سے تباہ کیا کہ شمن کو ٹھیک ہونے کا موقع نہ دیا۔ اس بمباری میں رن وے مکمل طور پر تباہ ہو گیا جبکہ انفراسٹرکچر اور سیمنٹ فیکٹری کو راکھ کر دیا گیا۔

اے زندہ دلان لاہور گواہ رہنا کہ تیری گلیوں میں ناشتہ کر کے ،اپنی فوجوں سے سلامی لینے ،جام سے جام ٹکراتے ،تیرے جم خانے میں بیٹھ کر چائے پینے کا بھارتی خواب تیرے جانبازوں نے صرف سترہ دن میں خاک میں ملا چھوڑا ،اس خواب کی قیمت بھارت کو سینکڑوں ٹینکوں کی تباہی اور پانچ ہزار سپاہیوں کی عبرتناک موت کی صورت میں چکانہ پڑی 

اے سرمین شہداء گواہ رہنا کہ اس دھرتی کے سپوتوں نے اپنے لہو سے،

 ہدیارا سے لے کر کھیم کرن تک 

چونڈ ا سے لے کر ہلواڑے تک

واہگہ سے لے کر جام نگر تک 

قصور سے لے کر کھنورا تک

اور BRB نہر سے لیکر دوارکا کے قلعے تک، وہ داستان وفا رقم کی ہے کہ جس پہ تا قیامت تیرے سبز ہلالی کو فخر و انبساط رہے گا۔

اے سوہنی دھرتی گواہ رہنا کہ نا صرف 1965 بلکہ جب جب بھی تجھ پہ دشمن کے مزائم مقاصد کے تاریک سائے لہرائے تو اس دھرتی کے بیٹو نے اپنے خون کے دیے جلائے کے تجھے روشنی بخشی ۔

اے وطن گواہ رہنا کہ کہ جب جب تیری عظمت و سر بلندی کا سوال بلند ہوا تب تب اس غیور قوم نے تیری پکار پر اپنے سروں کو جھکاتے ہوئے لبیک کہا۔

اے خاک اولیاء گواہ رہنا کہ سرزمین پاکستان کے نوجوان ہر میدان میں بدر کی روایات کے وفادار ہیں۔ حالات کی تیز ہوائیں اور دشمن کے مذموم عزائم کبھی بھی ان کے قدم ہلانے کے قابل نہیں رہے۔ وہ ہمیشہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈالے موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔

  

اے سرزمین عالی شان گواہ رہنا کہ ہم تیری خاطر لڑے اور ہم ہی تیری خاطر لڑیں گے ،ہم نے تیرے دفاع کو ہر آن مقدم جانا اور ہم ہی تیرے بقا کی جنگ لڑیں گے ،

اے مملکت خداد گواہ رہنا کہ تیرا زرہ زرہ تجھ پہ جاں نچھاور کرنے والے عظیم سپوتوں کے لہو اور ان سے جڑے تمام لوگوں کے ہمت و حوصلے اور وفاؤ کا قرض دار ہے،

تیری آزاد فضاؤں کے اک اک جھونکے میں باطل ہواؤں کا رخ موڑ دینے والے شاہینوں کے مقدس لہو کی خوشبو شامل ہے۔

عظیم قربانیوں کی لہو سے رقم داستانیں ہمارے لیے پیغام وفا ہیں کہ جان جاتی ہے تو جائے لیکن وطن پہ آنچ نا آئے، اور یہ پیغام ہے دشمنان وطن کیلیے کہ سر زمین وطن کا ہر سپاہی دفائے وطن کیلیے ہر لمحہ سر بکف ہے۔

اے ارض مقدس گواہ رہنا کہ ہمارے دل کی دھڑکن ہے یہ مملکت خداد، ہماری بس ایک ہی پہچان اور وہ ہے پاکستان ۔

اے وطن ہم گواہ ہیں تو بھی گواہ رہنا کہ تیرے سپوتوں نے حفاظت کی لاکھوں مسکراہٹوں کی۔ ہم گواہ ہیں کہ اس دھرتی کے بیٹوں نے ہمارے سہاگ بچانے کیلیے اپنی سہاگنوں کو بیوگی کی سفید چادر اڑھائی ،ہاں ہم گواہ ہیں کہ ہمارے شہیدوں نے اس گلشن کو اپنے لہو سے سینچا ہے، اس چمن کی فضاؤں میں لہراتا سبز ہلالی گواہ ہے ہمارے شہدا کی لازوال، خوں رلاتی قربانیوں کا، وفاؤں کا اور جرات و بہادری کی لاتعداد داستانوں کا ،اے خاک وطن تیری خوشبوں میں شامل شہدا کا لہو پکار رہا ہے کہ 

Comments are closed.