لاہور:ایک طرف کرونا وائرس کی تباہ کاریاں تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے کاروبار کی اجازت،حامی کون ، مخالف کون ،ذرائع کے مطابق حکومت کے اس فیصلے سے کاروباری طبقہ تو بہت خوش ہے ، لیکن دوسری طرف جن لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کوکرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھیں وہ اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے ،
کونا وائرس کی وجہ سے خواجہ سراوں کے متعلق حکومت کے فیصلے نے تہلکہ مچادیا
اطلاعات کےمطابق کپتان نے اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا ہے۔ پہلے وہ کہتے تھے گھبرانا نہیں ہے، آج کل وہ کرونا کے مزید پھیلنے کا کہہ کر عوام کو ڈرا رہے ہیں، تو دوسری طرف ان کی حکومت نے کرونا کی تباہ کاریوں کے باوجود بہت سے شعبہ ہائے زندگی کو کاروبار کی اجازت دے دی
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف مختلف قسم کا عوامی ردعمل آرہا ہے ، کراچی کے تاجروں نے تو کہہ دیا ہےکہ وہ ہرصورت مارکیٹیں کھولیں گے ، ان کے پیچھے پیچھے ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی تاجرحضرات نے ہرصورت کاروبارکرنے کا اعلان کیا ہے ، ادھرحکومتی فیصلے کےبعد عوام بھی دوگروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے ،
لاہور کے شاہ عالم مارکیٹ کے ایک تاجر محمد عثمان کہتے ہیں کہ اگرکاروبارنہیں کریں گے تو گھروالوں کو کیا کھلائیں گے ، حکومتیں کب تک عوام کی مدد کرتی رہیں تھی ، ان کا کہنا ہےکہ حکومت ک اس فیصلے سے کرونا پھیلنے کے اثرات بہت کم ہیں اورلوگوں کی بھوک پیاس مٹانے میں مدد ملے گی
لاک ڈائون : بیوی بچوں سے تنگ شخص 300کلومیٹرسفر طے کرنے والا پولیس کے ہتھے چڑھ گیا
عبدالغنی نامی ایک تاجرکہتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ درست ہے ، اس سے لوگوں کی بھوک پیاس ختم ہوگی ، لوگ کسی دوسرے کےسامنے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رہیں گے ،
اعظم مارکیٹ کے ایک تاجرمحمد شاہد کہتے ہیںکہ کورنا وائرس لاک ڈاون کے باوجود بھی پھیل رہا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ یہ کاروباری سرگرمیوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے پھیل رہا ہے جو اس کا شکارہیں اوردوسروں سے ملتے جلتے ہیں ، انہوں نےکہا کہ اگرہرمارکیٹ یہ فیصلہ کرلے کہ وہ کرونا وائرس ڈیٹیکٹرنصب کرلیں تو کاروبار بھی ہوجائے گا اور ایسے لوگ شناخت بھی ہوجائیں گاے
دوسری طرف ڈاکٹرمحمد سلیم کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا زیادہ احساس ہے کہ کرونا انسانوں سے انسان میں کس طرح پھیلتا ہے ہم ہرروزیہ مشاہدہ کرتے ہیں ، اس لئے ضروری تھا کہ چند دن اورلاک ڈاون ہوجاتا تاکہ اس وائرس پرمکمل کنٹرول ہوجاتا اوراگرحکومت نے اجازت دے دی ہے تو ڈرہے کہ یہ وائرس کہں زیادہ نہ پھیل جائے
صوبائی وزیراطلاعات سندھ ناصرحھسین کہتے ہیں کہ وہ اس حق میں نہیں ہیںکہ لوگوں کوان لاک کیا جائے اس سے وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ ہے ، یہی وجہ ہےکہ انہون نے تاجروں کو خبردار کیا ہےکہ کوئی بھی تاجرمارکیٹ نہیں کھولے گا
حکومت کے کل کے فیصلے کے نفی اس وقت ہوگئی جب چند دن قبل وزیراعظم عمران خان نے لاہور کے دورے میں ایک بار پھر کہا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرونا نہیں پھیلے گا، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ میں اسے پھیلتا دیکھ رہا ہوں۔
ادھر حکومت نے سپریم کورٹ میں کرونا وائرس کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی ہے، اس میں کہا ہے کہ 25 اپریل تک کرونا کیسز کی تعداد 50 ہزار ہو سکتی ہے۔ اب یہ گھبرانے کی بات تو ہے کیونکہ اس وقت کرونا کے کنفرم مریضوں کی تعداد تقریباً 3 ہزار ہے۔ اگلے بیس دنوں میں 47 ہزار مزید کیسوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
گویا 2 ہزار کیسز سے زیادہ روزانہ اضافہ ہوگا۔ یہ کیوں ہوگا، کیسے ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا سوال یہ ہے کہ اتنی زیادہ بے احتیاطی کے باوجود کرونا کی تعداد نہیں بڑھی اب جبکہ حد درجہ احتیاط ہے۔ ہر طرف لاک ڈاؤن ہے، لوگ گھروں تک محدود ہو گئے ہیں، یہ تعداد اتنی رفتار سے کیوں بڑھے گی۔
لگتا یہی ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس میں یہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھی ہے کہ تعداد زیادہ بتائی جائے تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ حکومت نے پہلے کیوں نہیں بتایا، کم کیسز آنے کی صورت میں حکومت کی تعریف ہو گی گوشمالی نہیں لیکن کم تعداد کی پیشن گوئی کر کے اگر زیادہ کیسز سامنے آ گئے تو حکومت کو سپریم کورٹ کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
سوشل میڈیا پربھی مختلف آرا سامنے آرہی ہیں اسلام آباد کے ایک نوجوان کا کہنا ہےکہ حیرت بات ہے کہ ایک طرف عمران خان کرونا کے پھیلاؤ سے ڈرا رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے کنسٹرکشن شعبے کو ایک بڑا پیکج بھی دیدیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اسے کھول رہے ہیں تاکہ لوگوں کو روز گار ملے۔
یاد رہے کہ ایک طرح حکومت کی طرف سے پنجاب میں ٹیکسٹائل ملز کو کھول دیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے بین الاقوامی آرڈرز کی تکمیل کے لئے مال تیار کر سکیں۔ مجھے تو اس میں ایک بہت بڑا تضاد نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف لاک ڈاؤن ہے اور بلا وجہ گھروں سے نکلنے والوں کو پولیس ڈنڈے بھی مار رہی ہے اور اُنہیں مرغا بنا کے کان بھی پکڑواتی ہے اور دوسری طرف ہزاروں مزدوروں کو اس بات کی اجازت دیدی گئی ہے کہ وہ اپنی ملوں میں جا کر کام کریں۔
زرعی شعبے کو آزادی دینے کی سمجھ تو آتی ہے۔ کیونکہ گندم کی کٹائی کا موسم آ گیا ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا۔ پھر یہ زیادہ تر کھلے دیہی علاقوں میں ہوتی ہے اور کٹائی کرنے والے بھی اسی گاؤں کے مکین ہوتے ہیں، مگر یہ ملز تو شہروں میں ہیں۔ ان میں کام کرنے کے لئے جو مزدور اور کاریگر دور دراز علاقوں سے آئیں گے اور ایک بند ماحول میں کام کریں گے تو کیا اس سے کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر متاثر نہیں ہوں گی۔ اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری کھولی جا سکتی ہے تو پاور لومز انڈسٹری کیوں نہیں کھولی جا سکتی۔ وہ تو ٹیکسٹائل ملز کے لئے خام مال فراہم کرتی ہیں۔