جان عالم کو دیکھ کر صحرائی پھول یاد آجاتا ہے۔ وہ حبس زدہ موسم میں اپنی شاعری سے وجود کومعطر کر دیتے ہیں ، جون ایلیا کے قبیلے سے ہیں اس لئے باتوں کو مصروں اور مصروں کو اشعار میں ڈھال لیتے ہیں۔ میرے مرشد (مرحوم) فضل اکبر کمال واقعی کمال کے انسان تھے ، کسی کو ڈانتے بھی تو نظم کا گماں ہوتا۔جان عالم بکھرے بالوں سے اپنی خواب دیدہ آنکھیں عیاں کرکے دیکھیں تو غزل کاساسماں ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صنف نازک سرے سے ہی ان کی آنکھوں میں جھانکتی ہی نہیں۔ وگرنا دونوں میں سے کوئی تو عشق کے جنگل میں کھو جائے گا۔ معصوم لفظوں سے اتنی زبردست فکری اشعار کہتے ہیں کہ پڑھنے سننے والا ، آگاہی کی تلوار میان سے نکال کر سماج کے خلاف لڑنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ 

سارے دریا بھی پی گیا لیکن  پیاس بجھتی نہیں سمندر کی 

اس شعر سے ہی خیال اور قلبی واردات عیاں معلوم ہوتی اور بھی نجانے کیا کیا پوشیدہ ہے۔ سہیل احمد تہذیب کے گلدستہ کاوہ پھول ہیں جنہیں جس جانب سے بھی دیکھا جائے خوش نمائی کا احساس بہار بن کے چارسو پھیل جاتا ہے۔ غالباً ان کی روح بہت پہلے لکھنؤ کے رومی دوازے پر بہت سا وقت چلا کاٹ کر آئی ہے۔ تبھی تہذیب ان کے عادات واطوار سے چھلکتی ہیں۔ جیسے پہاڑی دوشیزہ کے شانوں پرسنہرے بال بکھرے ہوں۔ میں جب ان سے مخاطب ہوتا ہوں۔ تو یہی احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں کتابوں کے مندر میں لفظوں کی دیوی کے سامنے موجود ہوں۔ عشق کی ناکامی سے شہزادہ گلفام بندہ بنے نابنے شاعر ضرور بن جاتا ہے تاج الدین تاج کو کبھی عشق کا مرض لاحق نہیں ہوا۔ لیکن ان کے اشعار میں عشق ، محبت ، حجر و فراق کی داستانیں بیوہ عورت کو بھی محو حیرت میں ڈال لیتی ہیں۔ مرحوم فراز سے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے ک تنے عشق کیئے۔ فرازؔ نے سگریٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے مسکرا کے کہا میں ہفتوں ہفتوں عشق کرتا ہوں۔ کل ہی کی بات ہے ایک ڈاکٹر میرے مصروں کی اسیری سے مجھ سے بغل گیر ہو گئی تھیں۔ تاج الدین تاج  یہاں مشاہدات و تجربات، منفرد خیالات کے رنگ استعاروں کی قوس و قزح میں ڈھل کر دلوں کے آسمان پر تادیر اپنے ثمرات چھوڑ جاتے ہیں ، کبھی کبھی مجھے گماں گزرتا ہے کہ مرحوم شکیب جلالی نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو۔ تبعی استعارے ان کے مصروں میں اتنے سلیقے سے پروئے ہوتے ہیں۔ جیسے دوشیزہ کے دل کی ڈائری میں یادوں کے پھول ہوں۔ تازہ خیالی اور جدت ان کے سامنے آداب بجا لاتی ہیں ۔

وہم تھا وسوسے تھے اور سائیوں کا ہجوم  خوف دستک دے رہا تھا بارشوں کی رات میں 

فکری خیال میں ڈوبے کسی خوش گماں کو دیکھوں تو محمد حنیف کاتصورجگمگا نے لگتا ہے۔ الفاظ آگاہی کی صورت میں مجسم بن کر دونوں ذانوں ان کے سامنے ہاتھ جوڑ ے رہتے ہیں، عشق ومحبت میں ناقدری سے پریشان لوگ جب سماج کے پھن پھیلائے حسین سانپوں سے ڈسے جائیں تو ان کے ذہن میں شاعر کی جو تصویر آتی ہے وہ حنیف صاحب جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ حنیف صاحب جز وقتی شوہر باپ اور استاد ہیں۔ہاں شاعر وہ کل وقتی ہیں۔ ا س لئے نہارمنہ قعطہ، سہ پہر نظم اور رات کو غزل ناکہیں تو نیند کی دیوی شانوں پر ہاتھ رکھنا ہی بھول جاتی ہے ۔ سادگی اور معصومیت سے خود پر اتنا ظلم کیا ہے کہ شاعروں کے شاعر بن گئے ۔ تنقید نگار خود پسندی کی عینک اتار لیں تو انہیں تسلیم کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ ان کا ایک منفرد اور زندہ رہنے والا شعر 

نجانے کونسا آسیب ہے فضائوں میں  حواس باختہ پھرتی ہیں تتلیاں کتنی 

نا میں ماضی کا قصیدہ گوہوں ، ناہی ماضی قریب کا مدعا سرا، ناشرائط پرجواب غزل لکھو، اچھا واہ واہ سننے کیلئے اچھا بولو۔ اگر ایسا ہے تو آپ جناب یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے۔ (یہ جز وقتی تشنہ لب نامکمل خاکے سائیبان فائونڈیشن کے چیئر مین اور کوہسار اکیڈمی کے ایم ڈی صاحبزادہ جوادکے دولت کدہ میں منعقدہ ادبی تقریب کے دوران فی البدی پڑھا گیا۔)

https://twitter.com/YST_007?s=09

Shares: