وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، بائیڈن نے محمد بن سلمان کی لٹیا ڈبو دی ، سنیے مبشر لقمان کی زبانی

0
51

وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، بائیڈن نے محمد بن سلمان کی لٹیا ڈبو دی ، سنیے مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی :سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے جہاں نئے امریکہ صدر بائیڈن مشرق وسطہ میں اپنی پالیسی کو مکمل طور پر تبدیل کرنے جا رہے ہیں وہیں اس خطے میں اپنے سب سے بڑے اتحادی سعودی عرب کے سب سے طاقت ور شہزادے محمد بن سلمان کو کسی صورت معاف کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں۔ اور اس سلسلے میں بیانات کے ایک بڑے سلسلے کے بعد ایک باقائدہ
دھماکہ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، آپ کسی بھی وقت سنیں گے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل پر امریکہ نے اپنی خفیہ ایجنسی کی طرف سے کی جانے والی رپورٹ جاری کر دی ہے اور اس کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے۔ اصل بات یہ نہیں ہے کہ رپورٹ جاری کی جا رہی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ اس رپورٹ میں محمد بن سلمان کو جمال خشوگی کا قاتل قرار دینے جا رہا ہے۔
اس رپورٹ پر نظر رکھنے والے
چار امریکی عہدے داروں کے مطابق رپورٹ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو خشوگی کی ہلاکت کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔

سی آئی اے نے یہ رپورٹ مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔جسے محمد بن سلمان کے حریف شہزادہ محمد بن نائف کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل کی منظوری دی تھی۔
جمال خشوگی امریکی اخبار
واشنگٹن پوسٹ
میں کالم لکھتے تھے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید اور کیا کیا خوفناک انکشافات ہیں اس پر میں آگے جا کر تفصیل سے بتاوں گا
لیکن اگر آپ نے ابھی تک چینل سبسکرائب نہیں کیا ہے تو کر لیں اور بیل آئی کون پریس کر دیں۔
امریکہ صدر بائیڈن اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے یہ رپورٹ پڑھ لی ہے اور وہ یہ رپورٹ جاری کرنے سے پہلے ایک دفعہ شاہ سلمان سے بات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کے مطابق بائیڈن سعودی بادشاہ کو صرف اس پیش رفت سے آگاہ کریں گے اور بتائیں گے کہ امریکہ یہ رپورٹ ریلیز کر رہا ہے۔
بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سعودی بادشاہ سے براہِ راست کوئی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مختلف سطح پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ بائیڈن کنگ سلمان سے کیا بات کریں گے۔
کیا بائیڈن شاہ سلمان سے محمد بن سلمان کے کردار کو محدود کرنے کی بات کر سکتے ہیں،
کیا بائیڈن یہ کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب میں نئے بادشاہ بنانے کے روائیتی طریقے کو اپناتے ہوئے محمد بن سلمان کو کراون پرنس کے عہدے سے ہٹا یا جائے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیا ان سب باتوں کے پیش نظر سعودی عرب کو پریشر میں رکھ کر ایران سے ڈیل کا اعلان کرنا ہے تاکہ سعودی عرب کی طرف سے کسی قسم کے
Reaction
کی توقع نہ ہو۔
جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ صدر بائیڈن کی اُن پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور یمن کی خانہ جنگی میں اس کے کردار کا ازسر نو جائزہ لینا ہے۔
جب محمد بن سلمان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنے دشمنوں اور مخالفین کو ختم کرنے کے لیئے ہر حربہ استعمال کیا۔کچھ کو سزا دی گئی، کچھ کو قتل کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی حکمت عملی
ٹھیک تھی۔ تو اس کا جواب ہے ۔۔۔۔نہیں
محمد بن سلمان نے آل سعود کے تخت نشینی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، اس نے سابق ولی عہد کو نظر بند کیا اسے منظر عام سے ہٹنے کے لیئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ محمد بن سلمان نے بہت سے سینئر شہزادوں کو گرفتار کیا اور پھر انہیں چھوڑنے کے لیئے ان کے خاندانوں سے رقم وصول کی، اس نے اپنے دیگر مخالفین کو گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا، جمال خشوگی اس کی ایک زندہ مثال ہے، جبکہ سابق سعودی انٹیلیجنس چیف
سعد الجبری ایم بی ایس پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں، ان کو مارنے کے لیئے محمد بن سلمان نے ٹائیگر سکواڈ بھیجا،
محمد بن سلمان نے قطر کےساتھ تعلقات خراب کیئے، سابق لبنانی وزیر اعظم
Saad Al-Hariri
کو سعودی عرب میں نظر بند کیا،
Abdullah Al-Hamid,
اور
Saleh Al-Shehhi
جیسے سیاسی مخالفین کو جیل میں قتل کروایا، تیل کی قیمتوں کی جنگ شروع کی اور یمن میں قتل عام بھی انہی کا کارنامہ ہے۔
نئے بادشاہ کے لیئے کئی عوامل کار فرما ہو تے ہیں ۔ سب سے اہم شاہی خاندان کی رضا مندی اور
Tribal alliances
بہت ضروری ہیں۔
اس کے بعد امریکی مدد، جو بادشاہ کو اپنے تخت کی بنیاد مضبوط کرنے میں مدد کرتا ہے۔
تمام سعودی بادشاہوں نے ہمیشہ پہلےامریکہ کی رضا مندی حاصل کی ہے، اور اس کے بعد قبیلے میں معاملات کو بیلنس کیا ہے تاکہ باہر سے اور اندر سے کوئی بڑی مخالفت نہ آئے۔ اور
Power struggle
شروع نہ ہو،
ماضی میں بڑے شہزادے امریکی صدر کی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے دوڑ لگاتے رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب سے باہر محمد بن سلمان کے
Domestic
ظلم و ستم اور جرائم کی حمایت کی ۔ خاص طور پر یمن میں اس کے جرائم۔اور پھر امریکی الیکشن نے یہ ثابت کر دیا کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اور جس کا نتیجہ خود ٹرمپ نے بھی بھگتا۔
موجودہ انتظامیہ اور
امریکی اسٹیبلشمنٹ محمد بن سلمان سے نفرت کرتی ہے۔
ال سعود خاندان کے بہت سے لوگ محمد بن سلمان سے نفرت کرتے ہیں، محمد بن نائف کے
U.S. intelligence services
سے قریبی تعلقات ہیں،
اس قبیلے میں ان کے قریبی ساتھی ، شہزادہ مطیب بن عبد اللہ ،
Prince Mutaib bin Abdullah
جس کے سعودی نیشنل گارڈ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں وہ بھی ان کے شانہ بشانہ
ہیں ۔۔
پھر شہزادہ احمد بن عبد العزیز ، ایم بی ایس کے چچا ، اگر جانشینی کے اصولوں کا احترام کیا جائے تو وہ بادشاہت کے اصلی وارث ہیں ۔
پورےامریکہ میں
MBS
کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے جبکہ بائیڈن کی جیت کے بعد
میز مکمل طور پر گھوم چکی ہے ، بائیڈن، ریاض کے ساتھ تعلقات کو روایتی خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد ٹرمپ دور میں سعودی عرب کے معاملات سے مبینہ طور پر صرفِ نظر برتنے کی پالیسی کو تبدیل کرنا ہے۔
بائیڈن آل سعود کے شاہی خاندان کی روایتوں کو احترام دینے کی بات کر رہے ہیں ، اور واشنگٹن کے سعودی عرب کے حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد کروائیں گے۔
جس میں انسانی حقوق کا زیادہ احترام ، کم علاقائی مہم جوئی اور پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات شامل ہیں ۔
سابق انٹیلی جنس چیف سعد الجبری محمد بن سلمان کے لیئے خطرہ بن چکے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں اسے سپورٹ کر رہی ہیں ۔
خشوگی اپنی شادی کے سلسلے میں بعض دستاویزات کے حصول کے لیے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جمال خشوگی کے قتل کا حکم دینے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
البتہ، ریاض نے آخر کار یہ تسلیم کر لیا تھا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے ضمن میں کیے گئے ایک آپریشن کے دوران غلطی سے جمال خشوگی کی ہلاکت ہو گئی تھی۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ بعدازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی جولائی 2019 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ خشوگی کی ہلاکت کی اخلاقی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔
خشوگی کی ہلاکت میں ملوث پانچ اہلکاروں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم خشوگی کے اہلِ خانہ کی جانب سے معافی کے بعد اُن کی سزائیں 20 سال قید میں تبدیل کر دی گئی تھیں۔
جمال خشوگی کو آخری
مرتبہ دو اکتوبر 2018
کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں اُنہیں سعودی ولی عہد سے منسلک اہل کاروں کی ٹیم کی جانب سے قتل کیے جانے کی اطلاعات آئی تھیں اور خشوگی کی باقیات آج تک نہیں مل سکیں۔
اس نئی رپورٹ کے جاری ہوتے ہی پوری دنیا کے میڈیا پر ایک ایسی نفرت کی لہر دوڑائی جائے گی اور ظلم کی ایسی ایسی داستانیں سنائی جائیں گی کہ دنیا بھر میں محمد بن سلمان کے لیئے نفرت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور میری نظر میں یہ محمد بن سلمان پر اب تک کا سب سے کڑا
وار ہو گاجس کے محمد بن سلمان انتہائی سنگین نتائج بھگتیں گے ۔ اور ان کے نئے بادشاہ بننے کی راہ میں شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
کیونکہ اس رپورٹ میں کہا جائے گا کہ محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل کے لیئے ڈائریکٹ آرڈر دیئے۔ یہی نہیں اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا جائے گا کہ کیسے محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان نے اپنے ھائی کے کہنے پر۔۔جمال خشوگی کو ترکی میں سعودی کانسلیٹ جانے کا کہا اور اسے یہ یقین دہانی کروائی کے وہاں سے کاغذات وہ انتہائی محفوظ طریقے سے لے سکتا ہے۔ پھر اسی پلاننگ کے تحت پندرہ بندوں کا سکواڈ سعودی عرب سے ترکی بھیجا گیا۔ جبکہ ترکی سی آئی کو جمال خشوگی کی
dying moments
کی ٹیپ کی ریکارڈنگز بھی دے چکا ہے۔ جو اس نے ترکی میں سعودی کانسلیٹ کے اندر ایک ڈیوائس رکھ کر ریکارڈ کی تھی۔ اور اس آڈیو کو سن کر یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ جمال خشوگی کو ایمبیسی میں گھستے ہی مار دیا گیا تھا۔
جمال خشوگی
Saudi consul general
کے آفس میں مرا تھا اور اس میں سعودی کونسل جنرل کی آواز بھی ریکارڈ ہے جس میں اس نے انتہائی ناخوشگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے صاف اور تمام ثبوت دھونے کا کہا تھا۔ اور جمال خشوگی کو مارتے ہی ایک انتہائی اہم کال
Saudi hit team, Maher Mutreb
نے محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی ساتھی
Saud al-Qahtani
کو کی تھی اور کہا تھا کہ مشن مکمل ہو چکا ہے۔
سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں وہ تمام فون کال بھی شامل کی ہیں جس میں سعودی شاہی خاندان کے لوگ جمال خشوگی کو لالچ دے رہے تھے۔
سی آئی اے کی
Assessment report
ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہے کہ سعودی عرب میں ایک پتہ بھی محمد بن سلمان کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ اور اس رپورٹ کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ٹرمپ اسے مسلسل سینٹ کے پریشر کے باوجود روکتے آ رہے تھے

Leave a reply