لندن:اب ایکس رے کے زریعے کورونا ٹیسٹ کا پتہ لگانا ممکن ہو گیا، ماہرین نے پی سی آر ٹیسٹ کے بجائے ایکس رے سے چند منٹوں میں 98 فیصد درست تشخیص کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے جسے انقلابی قرار دیا جارہا ہے۔
باغی ٹی وی : بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق نئی ٹیکنالوجی میں وائرس کا پتا لگانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے، ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فرنٹ لائن پر طبی عملے کے لیے مددگار ثابت ہو گا-
ویکسین لگانے کی کوشش، ایک شخص نے ہیلتھ ورکرکی پٹائی کردی،تودوسرا درخت پرچڑھ…
یونیورسٹی آف ویسٹ اسکاٹ لینڈ کے سائنسی ماہرین نے کورونا کی تشخیص کے حوالے سے ایکسرے مشین میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کر کے وائرس کی تشخیص کامیابی سے کی ماہرین کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانی جسم میں موجود کورونا سمیت دیگر وائرس کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور 98 فیصد درست نتائج دیتی ہے۔
ماہرین کے مطابق انہوں نے اس تجربے کی آزمائش بھی کی، جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ پی سی آر کے مقابلے میں وائرس تلاش کرنے کا بہتر اور تیز ترین طریقہ ہے کیونکہ پی سی آر کی رپورٹ کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے جبکہ اس کی مدد سے 19ویں منٹ میں 98 فیصد درست نتیجہ حاصل ہوجاتا ہے۔
برطانیہ کا کورونا پابندیوں میں نرمی کا اعلان
اس ٹیکنالوجی میں سافٹ ویئر اور الگورتھم کو 3000 کے قریب ایکسرے پر تربیت دی گئی ہے۔ ایکسرے کے ڈیٹا میں تندرست انسان، کووڈ 19 مریضوں اور نمونیا کے مریضوں کے ایکسرے شامل کئے گئے تھے۔ سافٹ ویئر نے سینے کے ظاہری ایکسرے کی بنیاد پر مختلف کیفیات کی تربیت حاصل کرلی اور یوں اپنے الگورتھم کی بنا پر درست ترین تشخیص کرنے لگا۔ اس طرح وقت کم ہوتے ہوتے 19 منٹ میں کووڈ 19 سے متاثرہ شخص کی شناخت ہونے لگی۔ اس طرح یہ ٹیسٹ پی سی آر اور دیگر تیزرفتار ٹیسٹ سے بھی آگے ہے۔
ماہرین کے مطابق اے آئی کا ’ڈیپ کنوینشنل نیورل نیٹ ورک‘ وہ الگورتھم ہے جس کی مدد سے عام طور پر تصاویر کا تجزیہ کیا جاتا یا پھر کسی مرض کی تشخیص کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایکسپو ویکسینیشن سینٹر کے انتظامی معماملات شدید متاثر،ملازمین نو ماہ سے تنخواہوں…
ماہرین کے مطابق یہ مشین صرف کورونا ہی نہیں بلکہ اومی کرون کی انسانی جسم میں موجودگی کی نشاندہی کرسکتی ہے جبکہ وائرسز کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، خاص طور ایسے وقت میں جب پی سی آر ٹیسٹ آسانی سے دستیاب نہ ہوں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ وائرس کے سنگین معاملات کی تشخیص کرتے وقت یہ اہم اور ممکنہ طور پر جان بچانے والا ثابت ہو سکتا ہے، اس بات کا تعین کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ مریض کو کس علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
تحقیقی ٹیم کے پروفیسر نعیم رمضان نے اس مشین کو انقلابی ایجاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد مرض کی بروقت تشخیص ہوسکے گی جس سے اُن کی جان بچانا ممکن ہوگا۔
کورونا وائرس کا شاید اب کبھی بھی خاتمہ نہ ہو،عالمی ادارہ صحت
پروفیسر نعیم کا کہنا تھا کہ اس میں اب تک ایک چھوٹا سا نقص یہ سامنے آیا تاہم انفیکشن کے ابتدائی مراحل کے دوران ایکس رے میں کورونا کی علامات نظر نہیں ہوتی ہیں، اس لیے یہ ٹیکنالوجی پی سی آر ٹیسٹوں کی مکمل طور پر جگہ نہیں لے سکتی تاہم، یہ پھر بھی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے خاص طور پر جب پی سی آر ٹیسٹ آسانی سے دستیاب نہ ہوں۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے کورونا سے متاثر اور صحت مند افراد کے پھیپھڑوں کی لی گئیں تین ہزار سے زائد تصاویر کی جانچ کی گئی، جس کے نتائج پی سی آر سے زیادہ بہتر آئے۔
ریسرچ، انوویشن اور انگیجمنٹ کے وائس پرنسپل پروفیسر میلان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر گیم بدلنے والی تحقیق ہو سکتی ہے یونیورسٹی آف ویسٹ اسکاٹ لینڈ کے پروفیسر نعیم رمضان نے کہا کہ ’مجھے امید ہے یہ ٹیکنالوجی ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں زیادہ مؤثر اور مددگار ثابت ہوگی‘۔