ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک بہتر نظام تعلیم
کا ہونا اولین شرط ہے۔ گزشتہ کئی دہائوں سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا جا تا رہا ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر ایک نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں ، سرکاری سکولوں اور مدارس کے نصاب میں یکسر فرق پایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل یکساں قومی نصاب کو رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کا نفاذ مرحلہ وار عمل میں آئے گا۔ایک سے پانچویں جماعت کے نصاب کو پہلے مرحلے میں پنجاب بھر میں نافذ کر دیا گیا ہے۔وزارت تعلیم پاکستان کے مطابق یکساں تعلیمی نظام یعنی تمام طلباء کے لئے ایک جیسا تعلیمی نظام ہو جس کی بدولت تعلیم کے حصول کے لئے منصفانہ اور مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
یکساں تعلیمی نظام کا مقصد ملک بھر کے تمام طلباء جن کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو ان کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنا،معاشرتی ہم آہنگی و قومی یکجہتی، تعلیمی مواد میں تفریق کا خاتمہ اور جدید عصری تقاضوں کے مطابق نظام تعلیم کو ڈھالنا شامل ہیں
حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی ماہرین تعلیم اور میڈیا میں زیر بحث ہے۔ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز ایسویشن کی جانب سے حکومت کی یکساں نصاب کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ان کا مؤقف یہ ہے کہ یکساں تعلیمی نظام کا نعرہ قابل تحسین ہے لیکن جو اختیار کیا جا رہا ہے وہ نہ تو یکساں تعلیمی نظام ہے اور نہ ہی قومی نصاب۔ تعلیم کے شعبے سے منسلک افراد کا اعتراض ہے کہ لازمی مضامین میں مذہبی مواد کو شامل کرنا اقلیتوں کے آئینی حقوق کے خلاف ہے۔ مزید براں یہ اعتراض پایا جاتا ہے کہ نیا نصاب نجی سکولوں کے طلباء کی فکری نشوونما کو بڑھانے کی بجائے رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔اور تنقیدی سوچ کے بجائے رٹے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مزید یہ کہ یکساں نصاب میں مذہبی رجحان تنقید کی ایک بڑی وجہ ہے۔ نجی اداروں کا موقف ہے کہ اپنے بچوں کے لئے نظام تعلیم کا انتخاب والدین کی صوابدید ہے۔ ریاست کی طرف سے نافذ کیے جانے والے تعلیمی نظام سے نہ صرف والدین کو ان کے اس اختیار سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس سے نجی اداروں کی خودمختاری
کو بھی نقصان پہنچے گا۔
البتہ حکومت کا موقف ہے کہ مدارس، سرکاری و غیرسرکاری سکولوں میں یکساں نصاب سے معیار تعلیم بہتر ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ اس برس جہاں پنجاب بھر میں یکساں نصاب کانفاذ عمل میں آیا وہیں چند نامور اور ممتاز نجی اداروں نے نصاب کو نافذ کرنے سے انکار کردیا۔جہاں نجی اداردوں نے مختلف اعتراضات اٹھائے ہیں وہیں پبلیشرز نے یکساں قومی نصاب کے تحت چھپنے والی کتابوں کی جانچ پڑتال پر سوالات کھڑے کیے ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس مد میں انہیں نہ صرف بھاری رقم ادا کرنا پڑے گی بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کے منافع میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس جب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈسے غیر منظور شدہ نصابی کتب کی جانچ پڑتال کی گئ تو یہ بات سامنے آئی کے سو سے زائد کتابیں جو نجی اداروں میں پڑھائی جا رہی تھیں ان میں نظریہ پاکستان کے مخالف مواد کی نشاندہی کی گئی ۔
آئین پاکستان کے مطابق جہاں ریاست قانون کے مطابق پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہےوہیں اس کی تعلیمی اصلاحات کو تنقید کا نشانہ بنانا اور یکساں قومی نصاب کے نفاذ کو چند حلقوں کی جانب سے مارشل لاء قرار دینا حیران کن ہے۔ 2006 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں کی جانے والی تعلیمی اصلاحات کی ناکامی کی بڑی وجہ اس پر عملدرآمد کا نہ ہونا تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے یکساں تعلیمی نظام سے نہ صرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو فائدہ ہوگا بلکہ مدارس کے بچے بھی صحیح معنی میں تعلیمی دھارے میں شامل ہو سکیں گے۔ اس پالیسی کو عملی جامہ پہننانے کے لئے حکومت اور پرائیویٹ سکول ایسوئشن کے درمیان باہمی تعاون بے حد ضروری ہے۔ مزید براں محض نصاب کی تبدیلی سے نظام تعلیم میں بہتر نہیں لائی جا سکتی ہے جب تک کے اس نصاب سےمتعلق اساتذہ کو باقاعدہ ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ تعمیری ڈھانچے کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا جا سکےلہذا یہاں بھی حکومت کی توجہ ضروری ہے۔

Written By: Khalid Imran Khan
Twitter ID: @KhalidImranK

Shares: