دس اکتوبر 2021کی صبح, سوا نو بجے کے قریب ایک مخصوص ایس ایم ایس ٹون کے بعد میں نے موبائل اٹھایا۔ ساتھ ہی ایک افسوسناک خبر میری آنکھوں کے سامنے تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم میں نہیں رہے۔
معذرت کے ساتھ گزشتہ تین چار سالوں میں یہ مذاق اتنی بار سن چکے تھے کہ دکانوں کو ایسے لگا کہ جیسے ایک بار پھر دھوکا دیا جارہا ہے ایس ایم ایس کرنے والے سے سوال بھیجا کیا واقعی؟؟
جواب ملا! بدقسمتی سے اس بار یہ خبر درست ہے ۔افسوس صد افسوس ہم نے ایک عظیم سائنسدان اور ایک عظیم انسان کو کھو دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان کو یقینا پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے اور رشک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اسلام آباد میں شاہرہ ِ فیصل کو ان کی جنازہ سے قبل و بعد کئی گھنٹوں تک مکمل طور پر بند دیکھا۔ بے وقت کی بارش اور گھٹاؤں نے عظیم سائنسدان کو رخصت کیا۔ گویا آسمان بھی رویا اس بے قدری پہ جس کا اس قوم کو سامنا ہے۔
اے کیو خان کو تمام تر سرکاری اور عسکری اعزازات کے ساتھ قومی ہیرو کے طور پر سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میں لاکھوں عام افراد کے علاؤہ سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ نمایاں بات یہ تھی کہ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے جنازے میں آنے سے عام لوگوں کی مشکلات میں اضافے ہونے کا احتمال تھا سو وہ شریک نہ ہوئے۔
ہماری لاش گلستاں میں دفن کر صیاد
چمن سے دور کوئی نوحہ خواں رہے نہ رہے
تعزیت کرنے والے انبار اور بہت سے نقطوں پر مشتمل بحث دیکھتے دیکھتے، پاکستان کے بھارت میں تعینات سابق سفیر عبداللہ باسط کی ایک تحریر آنکھوں سے گزری۔ درج تھا ” دفنائیں گے قومی اعزاز کے ساتھ”. ایسے لگا یہ الفاظ ڈاکٹر عبد القدیر کے تھے۔ آج سچ ثابت ہو گئے تھے۔ پھر لگا کہ نہیں پاکستان کے ہر محسن کی آواز ہے جو لٹ پٹ کہ پاکستان آیا اپنا سب کچھ اس کو دیا اور پھر غدار ہوا پھر جاتے جاتے اعزازات سے نواز دیا گیا کیوں کہ زبان بند ہوگئی تھی۔
خیرسوشل میڈیا پہ تلاش کیا تو ان کے یوٹیوب چینل پہ ایک وڈیو ملی جس میں سابق سفارتکار 25 مئی 2018 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر میں ہونے والی اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کی حکومتوں سے نالاں تھے۔ مگر ریاستی پالیسیوں سے باغی نہیں تھے۔ عام لوگوں کی طرح بلا وجہ میں واویلا بھی نہیں مچاتے تھے۔
عبد الباسط کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا ” اب پاکستان سے تو کچھ مقدم نہیں ہے ۔ یہ ریاست ہے تو ہم ہے نہیں ہیں۔ نہیں تو ہم نہیں ہیں” ایک اور جگہ کہا کہ میں قید میں ہوں لیکن سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کرینگے۔
ان چند جملوں سے ایسے لگتا ہے کہ اے کیو خان کم ظرف نہیں تھے۔ یقینا نہیں تھے۔ انھوں نے پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا۔ لکھا۔ بنایا بتایا۔ اپنی تحریروں سے بہت سے مشکلات کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
محسن پاکستان کے جانے سے پاکستان ایک ایسے اثاثہ سے محروم ہوا ہے۔ جس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔
قومی سلامتی کا ایک اہم باب رقم کرنے والا اے کیو خان دنیا سے تمام سرکاری اعزازات کے ساتھ رخصت ہوا ۔ اپنا باب بند کرتے کرتے ایک نیا باب کھول گیا ہے ہم کب تک اپنے ہیروز ایسے غداری کے الزامات میں نظر بند رکھیں گے اور پھر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن!!