یہ تو جسمانی آزادی ہے ذہنی نہیں
ازقلم غنی محمود قصوری
بزرگ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے اوائل دنوں کے بعد جب بھی 14 اگست آتا لوگ نوافل پڑھتے سربسجود ہوتے کہ اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمارے پیاروں کی جانوں کے نذرانے قبول کرکے قائد و اقبال و رفقاء کی محنت سے ایک الگ وطن دیا جس میں ہم سب آزادی سے رہ رہے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات عبادات بغیر خوف و خطر ادا کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ہندو کا ظلم جبر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس لئے ان کو آزادی کی قدر تھی
پھر رفتہ رفتہ تبدیلی آئی نعمتوں کا کفران نعمت ہونے لگا آزادی پاکستان کے وقت جو بچے تھے وہ جوان ہوتے گئے اور جو بوڑھے تھے وہ قبرستان کی زینت بنتے گئے اور جشن آزادی کو نعمت خداوندی جان کر بھی ہم اسی کافر ہندو و انگریز کی طرز پر منانا شروع کر بیٹھے کہ جس کی رسم و رواجوں سے ہمارے بڑوں نے تنگ آکر ہجرت کی اور اپنی جانوں کے نذرانے دیئے تھے کہ اگلی آنے والی نسلیں ان رسموں رواجوں سے بچ کر حقیقی مسلمان قوم بنے گی
دنیا کی اس رنگینوں میں آج جشن آزادی کے موقع پر ہم بھول گئے کہ اس ارض پاک کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے کم و بیش 16 لاکھ قربانیاں پیش کی ہیں اور یہ آزادی اتنی آسانی سے نہیں ملی بلکہ شیر میسور ٹیپو سلطان نے 1857 کی جنگ آزادی بھی اسی نظریہِ سے لڑی تھی
1857 سے 1947 کا سفر آگ و خون کی ہولی سے رقم ہے
جس میں پل پل قربانیاں پیش کی گئی تاکہ آزادی حاصل کی جا سکے اور اس ناپاک قوم ہندو و انگریز کی رسم و رواج سے اپنی آنے والی نسلوں کو بچایا جا سکے مگر افسوس کہ وہی رسم و رواج آج ہمارے کلچر کا باقاعدہ حصہ ہیں
ہم سمجھتے ہیں کہ اکیلا جسم آزاد ہو تو بندہ آزاد ہوتا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ جسمانی غلامی سے زیادہ خطرناک ذہنی غلامی ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کا دماغ جیسی ذہنی غلامی میں مبتلا ہو گا اس کا جسم وہی کام کرنے پر مجبور ہو گا اور آج جشن کے موقع پر ہم ہر دور غلامی والی حرکت دہرا رہے ہیں
قیام پاکستان کیلئے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی دلیل دیکھنا چاہتے ہیں تو آج بھی دہلی کے گیٹ وے پر 95300 راہیان آزادی کے نام دیکھئے جن میں سے 61945 مسلمان ہیں جنہوں نے انگریز و ہندو سے بیک وقت مقابلہ کیا اور اپنی آنے والی نسلوں کو اسلامی کلچر میں رنگنے کیلئے خود کو خون میں رنگ لیا
افسوس آج کا نوجوان محض سائلنسر نکال کر ڈھول کی تھاپ پر انڈین کلچرل کی طرح رقص کرنا اور باجا بجا کر لوگوں کو تنگ کرنا ہی آزادی کا اصل جشن سمجھتا ہے
کل تک ہمارے بڑے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے ہندو سے تنگ تھے تو آج کا مسلمان اپنے ہی مسلمان سے آج کے دن ذہنی و جسمانی طور پر تنگ ہے
جس کی مثال ہمارے گلی محلوں میں دن رات بجتے باجے اور اونچی آواز میں لگے گانے ہیں
ںجائے اس کے کہ اس دن شکرانے کے نوافل ادا کئے جائیں صدقہ خیرات کیا جائے کہ ہم جسمانی، روحانی،مذہبی طور پر آزاد ہیں الٹا ہم اسی ہندو پلید کا کلچر اپنا کر اپنی ذہنی غلامی کی عکاسی کر رہے ہیں
گزارش ہے کہ یہ اظہار آزادی آزادانہ نہیں بلکہ غلامانہ ہے سو اس جشن آزادی پر کچھ فلاحی کام کیجئے لوگوں کو کھانا کھلائیے،پانی پلائیے،عبادات کا اہتمام کیجئے اور خاص کر اس ارض پاک کیلئے نئے پودے لگا کر تازہ آکسیجن کی فراہمی کا اہتمام کیجئے تاکہ ہمارے بزرگوں کی روحیں سکون محسوس کریں کہ واقعی ہندو کیساتھ رہ کر ہماری اولادیں غلط کار ہونی تھیں شکر ہے اللہ کا ارض پاک کی بدولت آج ہماری اولادیں شاہراہِ اسلامیہ پر گامزن عبادات و فلاحی کاموں پر کاربند ہے
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین