اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے

ahmad fraza

اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

احمد فراز

یوم پیدائش : 12 جنوری 1931
یوم وفات : 25 اگست 2008
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رومان کی علامت اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے سید احمد شاہ علی المعروف احمد فراز 12 جنوری 1931ء میں کوہاٹ خیبر پختونخواہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ہندکو ، سید خاندان سے تھا۔ ان کی مادری زبان ہندکو اور پشتو تھی مگر انہوں نے اردو کو اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ شاعر ابن شاعر تھے۔ شاعری انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملی اُن کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے مشہور شاعر تھے۔ وہ پہلے احمد شاہ کوہاٹی کے نام سے مشہور تھے مگر فیض احمد فیض کے مشورے سے انہوں نے اپنا نام احمد فراز رکھ دیا۔ طالبعلمی کے دوران ہی ان کا پہلا شعری مجموعہ ” تنہا تنہا” شائع ہوا۔ وہ اس دوران ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک تھے مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد محکمہ تعلیم میں لیکچرر تعینات ہو گئے ۔ 1976 میں احمد فراز کو ” اکادمی ادبیات پاکستان ” کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا لیکن 1977 میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کی مخالفت کی بناء پر انہیں کچھ عرصہ جلاوطن ہونا پڑا۔ حالات سازگار ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ” لوک ورثہ” اور ” نیشنل بک فائونڈیشن” کے سربراہ مقرر ہوئے ۔

احمد فراز بیک وقت رومان کی علامتوں سے لے کر، مزاحمت کے استعاروں تک، ہجر کے مراحل سے وطن پرستی کی فکری اساس تک کی معنویت کے شاعر تھے، اُنہیں حروف اور موضوعات کی کوئی قلت نہ تھی، وہ اپنی شعری روایت اور تاثیر میں اپنی مثال آپ تھے۔
فراز کی شاعری میں سچائی، غزل کی نغمگی، کیفیات و جذبات و وجدان کا کھرا پن ، ندرتِ خیال،دل موہ لینے والی رومانوی و خواب آور کسک، گمان کے ہلکورے لیتے کٹورے، یقین کے ہمالے اور تصنّوع کی آلائشوں سے پاک جذبات کا اظہار ملتا ہے۔

فراز کا یہی وہ شاعرانہ امتیاز ہے جس کی بدولت وہ نہ صر ف اس دور میں بلکہ آنے والے تمام ادوار میں بھی یا د کیے جائیں گے اور ان کا نام تاریخ کے باب میں ہمیشہ جلی اور روشن رہے گا۔ فراز کے ایک درجن سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ، تنہا تہنا، جاناں جاناں اور فرقت شب و دیگر شامل ہیں ۔

چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زباں تیر کی ہے

دور ہے تو، تو تری آج پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں، اس کو خدا کہتے ہیں

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے

Comments are closed.