یوم وفات، شبنم رومانی
مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
شبنم رومانی
پیدائش: 30 دسمبر 1928ء
وفات :17 فروری 2009ء
نام مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی اور تخلص شبنمؔ ہے۔ 30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور(ہندستان) میں پیدا ہوئے۔ 1948ء میں بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ 1949ء کوآپریٹوز کے اکاؤنٹنٹ اور پھر اسسٹنٹ سکریٹری رہے۔ اسی سال ہجرت کرکے پاکستان چلےگئے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ نظمیں، افسانے، انشائیے سبھی کچھ لکھا ہے۔ 1973ء سے روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں ہائیڈ پارک کے عنوان سے پابندی سے ادبی کالم لکھتے رہے۔ سہ ماہی مجلہ ’’اقدار‘ کی ‘ خوبصورت ادارت کرتے رہے جبکہ وہ متعدد ادبی اور اشاعتی اداروں کے بانی اور مشیر بھی رہے۔ ۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’مثنوی سیر کراچی‘،’جزیرہ‘ (شعری مجموعہ) ، ’حرفِ نسبت‘ (نعت)، ’ارمغانِ مجنوں‘ (جلد اول۔مرتب)، ’تہمت‘، ’دوسرا ہمالہ‘ (شعری مجموعہ)۔ ” عطر خیال” نعتیہ شعری مجموعہ
شبنمؔ رومانی کی 17 فروری 2009ء کو کراچی میں وفات ہوئی اور عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔ ان کے ایک فرزند فیصل عظیم بھی شاعری کرتے ہیں اور ان کا ایک شعری مجموعہ” میری آنکھوں سے دیکھو” شائع ہو چکا ہے۔ فیصل عظیم بسلسلہ روزگار کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سکونت پذیر ہیں ۔ شبنم رومانی کی وفات کے وقت زیر طباعت کتب میں نظموں کا مجموعہ ” نفی برابر اثبات” تنقیدی مضامین کا مجموعہ” حریف ظریف” مزاحیہ و طنزیہ مضامین کا مجموعہ” کہتے ہیں جس کو عشق” اور مزاحیہ شاعری کا مجموعہ” فن ہمارا” شامل ہیں ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)
ویکیپیڈیا
تلاش و ترتیب : آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
شبنم رومانی صاحب کی شاعری چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد پیراہن بدلتا ہے یہ ہم پر اب کھلا
صرف لفظوں کی شاعری کو دھنک سمجھتے تھے ہم
اب کے بارش ایک ساتھی دے گئی
ایک چہرہ بن گیا دیوار پر
مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے
ہر آن ایک نیا امتحان سر پر ہے
زمین زیر قدم آسمان سر پر ہے
یہ معرفتِ غزل تو دیکھو
انجان کو جان لکھ رہا ہوں
میں نے دیکھا ہے بہت غور سے اس دنیا کو
اِک دلِ آزار مسیحا کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ دور افق میں اڑانیں ہیں کچھ پرندوں کی
اتر رہے ہیں نئے لفظ آسمانوں سے
لمحوں کا پتھراؤ ہے مجھ پر صدیوں کی یلغار میں
گھر جلتا چھوڑ آیا ہوں دریا کے اس پار
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے