کوئٹہ کے سرکاری اسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے اوپی ڈیز ، ان ڈور سروسزاور آپریشن تھیٹرز کا بائیکاٹ جاری ہے –

باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق ینگ ڈاکٹرز نے ساتھیوں کی رہائی کے لیے ڈیوٹیز سے بائیکاٹ کر رکھا ہے جس کے باعث مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ینگ ڈاکٹرز کا مطالبہ کہ کوئٹہ میں دھرنے کے دوران گرفتار کیے گئے ڈاکٹروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولیات کی فراہمی بھی مطالبات میں شامل ہے۔

بلوچستان حکومت نے پہلے ہی ایم آر آئی میشن کے لیے 250 ملین روپےجاری کر دیئے ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی میر عبدالقدوس بزنجو نے رقم جاری کردی ہے بہت جلد ایم آر آئی اور سی ٹی سکین مشینیں کام شروع کر دیں گی۔

واضح رہے کہ ینگ ڈاکٹرز نے 22 نومبر کو اپنے مطالبات کے حق میں کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دیاتھا جس سے نہ صرف کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا تھا بلکہ تعلیمی اداروں کو جانے والے طلبہ وطالبات بھی کئی دنوں تک مشکلات سے دوچار رہے تھے۔

کوئٹہ سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال: اب کوئی ڈاکٹر بائیکاٹ کرے گا تو اس کی نوکری چلی جائے گی عدالت

جس پر کوئٹہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 30 نومبر کو دھرنے میں شامل19 افرادگرفتار کیے تھے جن میں 15 ڈاکٹرز اور چار پیرامیڈیکس سٹاف ممبرز شامل ہیں- گرفتار افراد کو عدالت نے چھ دسمبرتک قید کی سزا سنائی تھی اور پولیس نے انہیں جیل منتقل کردیا تھا۔

لوچستان میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کا احتجاج اب ایک معمول بن چکا ہےاور حالیہ احتجاج دو ماہ قبل شروع ہوا تھا لیکن 23 نومبر سے شدید سردی کے باوجود انھوں نے گورنر ہاﺅس کے قریب دھرنا دیا تھا ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو مطالبات کی جو فہرست پیش کی گئی ہے وہ 24 نکات پر مشتمل ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے سپریم کونسل کے رکن ڈاکٹر ارسلان کے مطابق ان 24 مطالبات میں سے دو تین کے سوا باقی تمام مطالبات مریضوں کی بھلائی کے لیے ہیں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے بلوچستان میں سرکاری ہسپتال کھنڈرات بنے ہوئے ہیں اور ان میں علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جب مریض ہسپتال آتے ہیں تو ادویات اور دیگر سہولیات نہ ہونے پر وہ اپنا سارا غصہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے عملے پر نکالتے ہیں۔

پاکستان میں کورونا سے 8 افراد جاں بحق، 904 مریضوں کی حالت تشویشناک

ہسپتالوں میں ادویات اور جدید مشنری کو یقینی بنانا ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کا کام نہیں ہوتا بلکہ یہ کام حکومت کا ہے لیکن چونکہ ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے سامنے ڈاکٹر یا دیگر طبی عملہ ہوتا ہے اس لیے انھیں لوگوں کے اشتعال اور غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ینگ ڈاکٹروں کے ذاتی فائدے کے جو مطالبات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور جو پوسٹ گریجوایٹ سٹوڈنٹس ہیں ان کو ملک کے دیگر اچھے اداروں میں پڑھنے کے لیے ڈیپوٹیشن پر جانے کی اجازت دی جائے۔ 2016 میں ان کی تنخواہ 80 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 8 نومبر کو کوئٹہ سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال،طبی سہولیات سے متعلق کیس کی ہائی کورٹ میں سماعت میں چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں غلط کام کرتے ہیں؟ نظام کو چلنے دیں آپ میں سے کوئی آئی جی یا ڈی آئی جی پولیس سے ملا چیف جسٹس نے ینگ ڈاکٹر کو ہڑتال اور ریلیاں نہ نکالنے کی ہدایت دی تھی-

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ اب کوئی بائیکاٹ کرے گا تو اس کی نوکری چلی جائے گی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ پیرامیڈکس کو اپنے آپ سے الگ رکھیں-

Shares: