رمضان میں ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے کیسے چھٹکارا پایا جائے ، رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمشن میں مہمانوں کی گفتگو
باغی ٹی وی :رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمشن کے سلسلے میں آج رمضان کی آمد اورزخیرہ اندوزی کی لعنت کا موضوع زیر بحث رہا جس کے تمہیدی کلمات میں سینئر اینکر پرسن اور صحافی مبشر لقمان نے کہا کہ رمضان کی آمد پر ذخیرہ اندوزی نہ ہو اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ، بدقسمتی سے اس مقدس ماہ میں اس لعنت نے مسلمانوں کی شناخت کے طور پر حیثیت حاصل کر لی ہے . انہوں ذخیرہ اندوزی کی سنگینی اور گناہ بیان کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نفع کمانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے .
انہوں نے کہا کہ اسلام میں ہر طرح کے ذخیرہ اندوزی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے لفظ اذدخار کا ستعمال کیا گیا ہے . یعنی اشیائے ٍضروریہ کو جمع کر کے مصنوعی مہنگائی پیدا کی جائے اور من مانگی قیمت وصول کی جائے .اس جیسی ذخیرہ اندوزی کو منع کیا گیا ہے بدقسمتی سے جیسا ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے.انہون نے کہ سب سے جمع کر کے بازار میں اس چیز کی قلت پیدا کرنا تاکہ صارف ضرورت کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور منہ مانگی قیمت وصول کرے اس سے مہنگائی ہوتی ہے . یہ اسلام میں منع ہے اور ایسا فعل کرنے والا اللہ کے نبی کے مطابق ملعون ہے یعنی لعنت کا مستحق ہے .
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اشیاجمع کرتا ہے اور اس سے بازار میں قلت پیدا نہیںہوتی اور نہ قمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ایسی ذخیرہ اندوزی منع نہیں ہے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گنہگار ہے . اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جو کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کوڑ کے مرض میں مبتلا کرے . اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص تیس سے چالیس رور تک ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ اپنا سارا مال بھی خرچ کردے تو اس گنا ہ کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا. اس پر اللہ کی لعنت رہتی ہے .
صحت اور کھانے پینے کے متعلق سیگمنٹ میں ڈاکٹر شہلہ جاوید اکرم اور ڈاکٹر سمیع ممتاز نے اپنی ماہرانہ رائے دیں. اسی طرح کھانے پینے میں اعتدال کے بارے آگاہ کرنے سے آگاہی دینے کے لیے آج پروگرام میں شامل تھیں. ڈاکٹر شہلہ جاوید اکرم جو کہ ڈائٹشن ہیں. ان سے رمضان میں میں صحت مند کھانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم اکثر اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ روزے میں چونکہ کھانا پینا نہیں تو اس لیے زیادہ سٹور کر لیں. ایسا نہیں کرنا چاہیے ہمیں سادہ اور حفظان صحت کے مطابق ہیلتھی خوراک لینی چاہیے. انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ کھالیتے ہیں تو جو کہ فائدے کی بجائے الٹا نقصان دہ ہوتا ہے . انہوںنے کہا کہ ہمارا یہ ذہن ہوتا ہے کہ دسترخوان بھرا ہوا ہونا چاہیے.
ڈاکٹر سمیع ممتاز سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ روزے کی حالت میںسوئمنگ کرتے ہیں تو کیا کان میں پانی اندر منہ نہیں جا سکتا. اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کان سے آگے ڈیڑھ سینٹی میڑ پردہ ہوتا ہے جسے جس شخص کا پردہ ٹھیک ہوڈراپ وغیرہ اور اور اسی طرح نہانے وقت یا تیراکی کرتے وقت پانی اندر نہیں جاتا .، ایک نارمل شخص کا پردو عموما ٹھیک ہی ہوتا ہے .
سپر سٹار نجم شیراز نے کہا صحیح دین جب کسی کی زندگی میں آجاتا ہے تو اس کا پروفیشنلزم اور بھی بہتر ہوجاتا ہے . ہم نے دین کو سمجھ اور شعور کے ساتھ حاصل کر لیا تھا یقینا اس کے ثمرات ہم اس دنیا میں بھی دیکھیں گے.ایک سوال کے جواب میں .انہوں نے کہا کہ جب روزے کا دورانیہ لمبا ہویا کم ، گرمی ہو یا اچھا موسم روزے کی شدت کو کم کرنے کےلیے 90 فیصد کردار ایمان اور تقویٰ کا ہے . یہ روحانیت ہی ہے جو آپ کو مشکل سے مشکل وقت میں ہمت سے کھڑا رکھتی ہے . اللہ پر ایمان جتنا مضبوط ہو اتنا ہی روزے کو نبھانا آسان ہوتا ہے .
علامہ مشتاق حسین جعفری صاحب نے ذخیرہ اندوزی کی لعنت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کلہ پڑھنے کے بعد بھی جو شخص ذخیر اندوزی کرتا ہے وہ اس بات سے عملی طور پر انکاری ہو جاتا ہے کہ اس نے اللہ کے ہاں جواب دینا ہے . اسی طرح خاتون سکالر نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی کے جرم سے پہلے ہمیںاس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسلام جو معاشی فکر ہمیں دیتا ہے اس کا بنیادی عنصر ظلم کو روکنا ہے ، اسلام معاشی طور پر کسی پر بھی ظلم نہیں ہونے دیتا ، تو ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اس ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں. یہ ذخیرہ اندوزی ظلم ہے اور کسی کا حق مارنے کے مترادف ہے .
لندن سے صحافی نے کہا کہ لندن میں رمضان آتے ہیں بڑے بڑے سٹورز پر کھانے پینے کی اشیا بہترین کوالٹی کے ساتھ اور رعایتی قیمت لگ جاتی ہے . وہ لوگ اگرچہ مسلمان نہیں ہیں لگتا ہےکہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کا ہمارے اسلام کے اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے .
چین سے زون احمد خان نے چین کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ چین میں اب بھی حفاظتی اقدام کو چھوڑا نہیں گیا . اگرچہ کاروباری سرگرمیاں شروع ہیں. لیکن یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بند ہیں. ان میڈیا نے اب بھی ان کےکو ایجوکیٹ کیا ہوا ہے کہ احتیاط نہیں چھوڑنا اور اس کے لیے ہمارے لیے بھی ایک مثال ہے . کہ ہم اس مہلک بیماری سے کیسے نمٹیں اور احتیاط کا دامن نہ چھوڑیںِ