اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کی سماعت کی

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی حکم پر ذاتی حیثیت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے . اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے عام آدمی کو 70سال میں بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک رسائی نہیں، ضلعی عدالت عام آدمی کی عدالت ہے عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا، ضلعی عدالت عام آدمی کی عدالت ہے ،جس حالت میں ماتحت عدلیہ کام کر رہی ہے انکا اعتماد بڑھانے کیلئے اس عدالت نے بہت کام کیا،عدالت کو توقع تھی کہ آپ اس عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وہاں سے ہو کر آتے،جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہی ہوئی بات واپس نہیں آتی ،جبری گمشدگیاں بد ترین ٹارچر ہے ،بلوچ طلبہ کے ساتھ جو ہوا وہ بھی ٹارچر ہے تین سال سے ہم ان معاملہ کو وفاقی حکومت کو بھجوا رہے ہیں لیکن ٹارچر کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، آپ کا جواب اس بات کا عکاس ہے کہ جو ہوا اس کا آپ کو احساس تک نہیں آپ کے موکل کو احساس نہیں کہ انہوں نے کیا کہا کاش اپنے دور حکومت میں اس ٹارچر کے مسئلے کو اس جذبے سے اٹھاتے،اگر تب یہ مسئلہ سنجیدگی سے دیکھا گیا ہوتا تو آج نہ ٹارچر کا مسئلہ ہوتا نہ بلوچ طلبہ کا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس عدالت کے معاون ہیں، خود کو کسی کا وکیل نہ سمجھیں ،عدالت نے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کر دی،شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آبادہائیکورٹ نے حکم جاری کیا،ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتا ہوں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟ وکیل نے کہا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی؟ اڈیالہ جیل کس کے انتظامی کنٹرول میں ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے کیس ریمانڈ بیک کیا تھا، کیا عمران خان کے اس وقت دیئے گئے بیان کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟یہ عدالت تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے فیصلوں پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں، اس عدالت کو رات 12بجے کھلنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہم تو ہمیشہ سے ہی انصاف کی فراہمی کے لیے موجود تھے ،ماتحت عدلیہ کے ججز کوئی ایکس اور وائے نہیں یہ وہ عدالت ہے جو صرف قانون پر چلتی ہے اس کے تمام ججز غیر جانبدار ہیں، عدالت نے آرڈیننس کالعدم قرار دیا اگر آج وہ ہوتا تو گرفتاریاں بھی ہوتیں ضمانت بھی نہ ہوتی، سیاسی لیڈرز کی اس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں یہ عدالت کیوں بارہ بجے کھلی ؟ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے،یہ عدالت کمزور کے لیے بھی چھٹی کے روز 24 گھنٹے کھلی رہی ہے ،انہوں نے اچھے انداز میں گلہ کیا کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو ایڈریس کرتے ،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے،اس عدالت کے کسی جج کو کوئی زیراثر نہیں کر سکتا ،آج موقع ہے تو بتا دیتے ہیں کہ عدالت رات کو کیوں کھلی تھی؟ اس عدالت کے ذہن میں تھا کہ جو 12 اکتوبر کو ہوا وہ دوبارہ نہ ہو،یہاں کوئی اگر ایک لاکھ آدمی بھی لے آئے تو اس عدالت پر اثر نہیں ہوتا،میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کر وائرل کیا گیا، مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصاویر لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی، طلال چودھری ، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی کا کیس بھی عدالت کے سامنے ہے ،آزادی رائے کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے رتبے کے مطابق نہیں ،حامد خان نے کہا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں،عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتیں ،

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے،توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے،تحریری جواب دوبارہ جمع کرائیں ورنہ ہم کارروائی آگے بڑھائیں گے، طلال چودھری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کیسزمیں فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیں، پھر کہہ رہا ہوں کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھنے کی کوشش کریں،

جسٹس میان گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کارروائی آج ہی ختم ہو سکتی تھی لیکن آپکے جواب سے یہ ختم نہیں ہو گی،آج تو کارروائی آگے بڑھائی جانی چاہیے تھی چیف جسٹس آپکو ایک اور موقع دے رہے ہیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب آئین سپریم ہو گا،اس ملک میں اصل تبدیلی تب آئے گی جب سول سپرمیسی ہو گی،عدالت معاون مقرر کرنا چاہتی ہے تاکہ کارروائی شفاف رہے، بتائیں کیسے کیا جائے ،اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں،

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا خاتون جج کو دھمکی ،اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 8ستمبرتک ملتوی کر دی گئی،منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل عدالتی معاون مقرر کر دیئے گئے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلے گا کہ ہم ایسے معاملات کو ایگزیگٹوز کو بھیجتے رہے ہیں کسی نے سنجیدہ نہیں لیا ،پچھلے تین سال میں ایک کیس کی بھی تحقیقات نہیں ہوسکی ،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہماری عدلیہ 130 نمبر پر ہے، فواد چودھری کے ساتھ میٹنگ میں انہیں بتایا کہ یہ چیف ایگزیکٹو کی غفلت کا معاملہ ہے،یہ وقت ہے ہم ایک پاکستان کی تعمیر نو کریں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیس کی کاپیاں معاونین کو آج ہی بھیجی جائیں پیکا آرڈیننس اگر معطل نہ ہوتا تو آج آدھا پاکستان جیل میں ہوتا ،قانون سے بالاتر کوئی نہیں

قبل ازیں عدالت پییشی کے موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ راستے بند کرانے کی سمجھ نہیں آئی اتنا خوف کیوں ہے ہم نے ورکرز کو بھی کہا کہ کسی نے بھی نہیں آنا ،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ سے روانہ ہو گئے

عمران خان سمیت پوری پی ٹی آئی کو نااھل قرار دے کر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا مطالبہ 

ممنوعہ فنڈنگ کیس،الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا،تحریک انصاف "مجرم” قرار’

،عمرا ن خان لوگوں کو چور اور ڈاکو کہہ کے بلاتے تھے، فیصلے نے ثابت کر دیا، عمران خان کے ذاتی مفادات تھے

اکبر ایس بابر سچا اور عمران خان جھوٹا ثابت ہوگیا،چوھدری شجاعت

عمران خان چوری کے مرتکب پارٹی سربراہی سے مستعفی ہونا چاہیے،عطا تارڑ

Shares: