ذہنی سکون- ترجیح اول تحریر: سید غازی علی زیدی
آج کے پر آشوب اورنفسانفسی کے دور میں، زیادہ تر لوگ ڈپریشن و ٹینشن جیسے امراض سے نبردآزما ہیں۔ ذہنی سکون اولین ترجیح تو ہے لیکن بدقسمتی سے نایاب ہوتی جارہی۔
معاشی مسائل ہوں یا معاشرتی تفکرات، روز بروز ہمارے اضطراب و بے سکونی میں اضافہ کررہے اور ہم بےبسی سے تماشا دیکھ رہے۔بظاہر پرآسائش گھر، پرتعیش گاڑیاں،مال ودولت، اولاد سب ہے لیکن قلبی سکون نہیں۔ عجیب بےچینی ہےجس کا مداوا نہیں ہوپارہا۔گولیاں پھانک کر بھی نیند سے محرومی ہے۔ حالانکہ صدقہ و خیرات میں کوئی کوتاہی نہیں، نماز پنجگانہ اور حج و عمرہ باقاعدہ، پھربھی پریشانی ہے کہ جاتی نہیں۔ پریشانی بھی ایسی جو ناقابل بیان و برداشت،ایسے رستے زخم جن کا مرہم ناپید۔ وجہ؟ حقوق اللّٰہ و حقوق العباد میں کوتاہی۔
اورحل؟ سادہ ترین۔ لیکن اپنی انا کو کون مارے؟
فرمان باری تعالیٰ ہے
"اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان(سکون) نصیب ہوتا ہے۔”
لیکن اگر عبادات، صدقات، خیرات سکون دینے سے قاصر ہیں تو یقیناً ہمارےمعاملات زندگی بگاڑ کا شکار ہیں۔
حقوق اللہ کی معافی تو یقیناً توبہ استغفار سے مل سکتی لیکن حقوق العباد کی معافی بغیر تلافی و کفارہ دیے ممکن نہیں۔کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کردیں گے لیکن بندوں کے حقوق جب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک مظلوم خود معاف نہ کرے۔
تو پھر ہم کہاں بھٹکتے جا رہے؟
انسان اتنی عجیب مخلوق ہے کہ جو چیز اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں رکھ دی ہے اسے مادی اشیاء میں تلاش کرتا۔حقوق العباد سے پہلو تہی کرنے والوں کے مقدر میں بےچینی و پریشانی لکھ دی جاتی۔ سکون، خوشی، اطمینان یہ سب انسان کی ذات میں پوشیدہ ہیں۔ اچھائی و نیکی کیلئے معمولی سی کاوش بھی لامحدود نتائج دیتی جبکہ ایک معمولی غلط کاری دل پر سیاہ داغ کی صورت اپنا نشان چھوڑ دیتی۔ دل جتنا خوبصورت و پرنور ہو گا اتنا ہی اطمینان قلب نصیب ہو گا۔ جبکہ سیاہ کاروں کیلیے تو دنیا میں بھی بے سکونی و گمراہی ہے اور آخرت میں بھی ضلالت و رسوائی۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم ظاہری خوبصورتی کیلئے تو ہر حد تک جاتے یہاں تک کہ پلاسٹک سرجری کرانےسے بھی گریز نہیں کرتے لیکن اندرونی بدصورتی کا سدباب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
دولت کے انبار، رنگ و نور کا سیلاب، عیش وعشرت، سیرو سیاحت، تفریحات و ترغیبات، شراب و کباب سے آراستہ رنگین محافل، منشیات،مزید برآں ان خرافات کے حصول کیلئے کی گئی کرپشن، رشوت، حرام کمائی، دھوکہ بازی! الغرض حرص و ہوس،بداعمالیاں، بے راہ روی، بداخلاقی انسان کے ضمیر کو مردہ کرتی چلی جاتی۔
جان لیجیئے: یہ سب وقتی خوشی تو دے سکتے لیکن سکون قلب دینا ان مادی اشیاء کے بس کی بات نہیں۔الٹا سرمایہ، وقت اور صحت کا ضیاع ہے
کیا وجہ ہے کہ تاریخ انسانی کےکامیاب ترین افراد خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتے حالانکہ وہ بظاہر تمام نعمتوں سے مالا مال تھے؟ پھر خواہ وہ ہٹلر ہو یا مشہور پینٹر وان گوگ، حسنیہ عالم قلوپطرہ ہو یا سلیبرٹی شیف انتھونی بورڈین، اداکار سوشانت سنگھ ہو یامزاح کا بے تاج بادشاہ رابن ولیمز، کامیاب ترین ہوکر بھی ناکام قرار پائے۔
"بےشک انسان خسارے میں ہے”
اپنی گمراہی پر خود گواہ،شیطانیت کا آلہ کار بناہوا۔ حرص و ہوس،بداعمالیاں، بے راہ روی، بداخلاقی انسان کے ضمیر کو مردہ کرتی چلی جاتی اور اپنے وقتی سکون کیلئےگھاٹے کا سودا کرکے خوار ہوتا۔
اگر ذہنی سکون چاہیے تواپنے مردہ ضمیر کو جگائیں۔خود احتسابی پہلا قدم ہے سکون قلب کے حصول کیلئے۔ اور یہ قدم ہر انسان کو خود اٹھانا پڑتا۔خلوص، محبت، اخوت ، رزق حلال، سادگی، عاجزی یہ وہ گنج ہائے گراں مایہ ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتے۔ بظاہر معمولی لیکن ہر وصف اپنے اندر سمندر جیسی وسعت سموئے ہوئے ہے۔ حقداروں کو ان کا حق دیں۔ مخلوق خدا کے ساتھ معاملات ٹھیک کریں،حق تعالیٰ وہ بھی ودیعت کرے گا جو آپ کے گمان میں بھی نہ ہوگا۔ آزمائش اور سزا کا فرق جاننے کی کوشش کریں جو مصیبت قرب الٰہی عطا کرے وہ آزمائش ورنہ سزا۔ حضرت محمد ﷺ پر سب سے زیادہ تکالیف آئیں لیکن ان سے بڑھ کر خدا کومحبوبﷺ کوئی نہیں۔ لوگوں کی تکلیفوں میں انکا ساتھ دیں اللّٰہ تعالیٰ آپکی تکالیف دورکردے گا۔
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت
ناانصافی، رزق حرام، جھوٹ، نمود و نمائش ہماری زندگی کو جہنم بنادیتے لیکن ہم وقتی و ذاتی اغراض کے حصول کیلیے ان علتوں کو گلے لگائےبیٹھے ہیں۔ رسم ورواج، سماجی روابط، عہدے و رتبے کو خدا بنا کرسکون قلب کے طلبگار ہیں؟
ذہنی سکون عطائے خداوندی ہے جس کو میسر ہو گیا اس کیلئے مشکلات میں بھی آسانی کا وعدہ ربی ہے اور جو اپنی خطاکاری و ریاکاری کی وجہ سے محروم رہا وہ حریر و ریشم کے باوجود بھی نامراد رہے گا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
writer :
Syed Ghazi Ali Zaidi