ایک دفعہ حسب معمول بیربل اور شہنشاہ باتیں کر رہے تھے شہنشاہ نے فرمایا بیربل ! وہ کیا ہے جو عزیز ہے ہر ذی روح کو بیربل نے عرض کیا عالی جاہ ! زندگی بہت پیاری ہے ہر ایک انسان اور دوسرے جاندار کو شہنشاہ نے فرمایا کیا تم اسے ثابت کر سکتے ہو؟ بیربل نے عرض کیا ہاں میں ثابت کر سکتا ہوں چند دنوں بعد بیربل ایک بندر کا بچہ اس کی ماں کے سمیت دربار میں لایا محل کے باغ کے درمیان ایک بڑا تالاب تھا بیربل نے نوکروں کو یہ تالاب خالی کرنے کا حکم دیا اس نے تالاب کے درمیان ایک بڑا پول نصب کرنے کے لئے کہا اس کے بعد اس نت بندر اور اس کے بچے کو تالاب میں چھوڑ دیا اس کے بعد نوکروں کو آہستہ سے پانی بھر دینے کو کہا شہنشاہ اس عمل کع بڑے شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا جونہی تالاب میں پانی کی سطح بلند ہو نا شروع ہوئی تو بندریا پول پر چڑھ گئی اور اپنے بچے کو اپنے ساتھ چپکا لیا جب پانی بلند ہو کر بندریا کی چھاتی تک گیا تو بندریا نے اپنے بچے کو ہاتھوں میں اوپر اٹھا لیا اور حفاظت کے لئے پول پر چڑھ گئی شہنشاہ نے جب یہ سب دیکھا تو کہا دیکھو بیربل وہ اپنے بچے کس طرح بچانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ اس کا بچہ اس کی اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے اسی دوران پانی کی سطح بندریا کی گردن تک بلند ہو گئی پانی نے اس کے ناک اور کانوں میں جانا شروع کر دیا یہ ظاہر ہوا گویا کہ اب وہ مر جائے گی اس نے تھوڑی دیر بعد اردگرد دیکھا پھر وہ اپنے بچے کو اپنے پاؤں نتلے دبا کر اس کے اوپر کھڑی ہو گئی اور پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی بہربل نےکہا دیکھئے عالی جاہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے اپنے بچے کی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہی اس نے اپنے بچے کو اپنے پاؤں کے نیچے دے دیا اور اپنی جان بچائی کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ایک کو سب سے عزیز اپنی جان ہے شہنشاہ کو بڑا صدمہ پہنچا اور وہ کچھ بھی تبصرہ نہ کر سکا اس نے آرام سے کہا زندگی تمام کو سب سے عزیزہے بیربل مسکرا دیا اور اس نے نوکروں کو تالاب سے پانی کو نکالنے کا حکم دیا تاکہ بندریا اور اس کے بچے کو بچایا جا سکے ( حکایات سعدی)

زندگی پیاری ہے ہر ایک انسان اور دوسرے جاندار کو!
عائشہ ذوالفقار6 سال قبل







