زیادتی کے بڑھتے واقعات تحریر خالد عمران خان

ویسے تو پاکستان اسلام

کا قلعہ کہلاتا ہے ،ایک اہم اسلامی ملک ہے لیکن کچھ ایسی انہونیاں اور واقعات رونماء ہوجاتے ہیں کہ انسان کہ سوچ میں دور دور تک شاید اس کا نام و نشان تک نہ ہو آج ایک ہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گی جو کہ یقین قارئین میری تحریر سے اتفاق کریں گے۔

ہمارے ملک میں گذشتہ کچھ سالوں سے زیادتی کے واقعات میں کثیر تعداد میں اضافہ ہوا،آئے روز اس طرح کے واقعات میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں اور اس میں خطرناک حد تک اضافہ بچوں سے زیادتی ھے جو کہ پریشان کن بات ھے پاکستان کے مختلف علاقوں سے ایسے کیسز سامنے آتے ہیں یہاں ایک بات یہ بھی گوش گزار کرتی چلوں کہ یہ کیسز وہ ہیں جو پولیس کے پاس فائل ہوتے بعض جگہوں پر بچوں کے والدین خوف،بدنامی اور شرم و حیا کے باعث یا پھر غربت کی وجہ سے کیسز درج نہیں کرواسکتے ہیں جو کہ بے بسی کی انتہا ھے اور معصوم بچوں کو انصاف بھی نہیں مل سکتا حال میں دیکھا جائے تو "زینب ریپ کیس” کو میڈیا میں ہائی لائٹ کیا گیا جس کے کاروائی عمل میں لائی گئی شہروں میں تو خدانخواستہ اگر کسی کے ساتھ ایسا واقع ہوجاتا ھے تو پولیس کے پاس رپورٹ درج کروائی جاتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں بہت کم لوگ ہمت کرپاتے زیادہ تر خاموشی اختیار کیے رکھتے جس کی وجہ سے ایسے دردندوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور پھر سے نیا کیس سامنے آتا ہے ھے۔

ایسے کیسز وقوع پذیر ہونے کی ایک وجہ دین اسلام سے دوری بھی ہے لوگ خاص طور پر نوجوان نسل انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہے،اب تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں فحش مواد پر پابندی لگانے کی جسارت نہیں کی زیادتی کیسز کے بڑھتے واقعات میں فحش مواد قاتل کے طور پر کام کررہا ھے اگر حکومت ایسے مواد اور لٹریچر پر مکمل پابندی عائد کردے تو یہ نوجوانوں کو سدھارنے کے لئے ایک احسن اقدام ہو گا۔

2020 کے بارہ ماہ میں بچوں سے زیادتی کیسز میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ شرح بتدریج بڑھ رہی ھے حکومت کا اس سلسلے میں کوئی رول دیکھنے میں نہیں آیا اس کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے یہاں ضیاء الحق کے دور حکومت کا حوالہ دوں گی جب سرعام پھانسی دی گئی ریپ کیس کے مجرمان کو اس کے بعد ایک طویل عرصے تک ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

زنا بالجبر ایک گھناؤنا فعل ھے جس کی اسلامی روح سے سختی سے ممانعت کی گئی پاکستان میں اس وقت ناصرف معصوم بچے بلکہ خواتین اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ بھی زیادتی کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا حیران کن طور بہت سارے واقعات پولیس کی ملی بھگت سے ہوتے جو کہ ایک تشویشناک بات ہے سب سے پہلے پولیس کے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ھے بعض جگہوں پر پولیس کے ڈر سے غریب عوام تھانے کچہریوں میں جانے سے خوف زدہ ہوتے ہیں کیونکہ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے اگر کوئی لڑکی زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے تو پولیس مرہم رکھنے کی بجائے اسے مذید اذیت کا شکار کردیتی ہے ایسے کیسز کو جلدی نمٹانے کی بجائے طوالت دی جاتی جان بوجھ کر پھر بھری عدالت میں وکلاء کے معنی خیز سوالات مزید زہنی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں شریف گھرانے کی لڑکیوں کے والدین ایسے بہت سارے کیسز میں چپ سادھ لیتے اور بعض اوقات معملات صلح صفائی سے نمٹانے کو ترجیح دیتے ہیں ایسے میں زیادتی کرنے والے کو فرق نہیں پڑتا لیکن اس لڑکی کی زندگی مکمل تباہ ہوچکی ہوتی ھے اکثر کیسز میں لڑکیاں طعنوں اور بدنامی کے خوف سے خود سوزی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

اب تیسرے اور اخری حصے میں نوجوان لڑکوں سے زیادتی واقعات کا زکر کروں گی جس میں شرمناک حد اضافہ دیکھنے میں آیا ھے نوجوانوں سے زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر وڈیرے ملوث پائے جاتے ہیں،جنہوں نے غنڈوں کو کرائے پر بھرتی کیا ہوتا ھے زیادہ تر کمزور اور غریب لڑکوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد ظلم کی انتہا یہ کہ ان کو زبان درازی کرنے پر قتل کی دھمکیاں تک دی جاتی بعض واقعات میں تو جان سے بھی مار دیے جاتے ہیں جو کہ دوہرا جرم ہے لیکن ایسے مجرموں کے تعلقات پولیس اور دیگر اداروں میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ درندے بچ کر نکل جاتے ہیں اور پھر سے نئے جرم کے لئے دندناتے پھرتے ہیں اگر کوئی پکڑا بھی جاتا ہے تو متاثرہ نوجوان کی فیملی کو پریشرائز کروا کر راضی نامہ کروا لیا جاتا ہے۔ میرے اپنے علاقے کوٹلی ستیاں سے بھی کیسز سامنے آرہے ہیں جن پر اب آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں حال میں ایک یتیم بچے کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا ھے جو کہ انہتائی افسوسناک واقع ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے بہرحال اس کیس میں کافی پاور فل آواز اٹھائی گئی ھے امید ہے مجرمان جلد کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے۔۔۔۔

زیادتی ایک سنگین اور ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا موت ہونی چاہیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لازمی ہونی چاہیے تاکہ اس گھنائونے جرم پر قابو پایا جاسکے نہیں تو یہ معاشرے کے لئے ناسور بن چکا ھے جو کہ خطرناک ہے اگر زیادتی کیسز کے واقعات کے بروقت تدارک کے لیے اقدامات نہ کئیے گئے اور فوری سزا نہ دی گئی تو اس کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ھے۔۔۔اور ویسے بھی پاکستان کافی مسائل میں گھرا ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کی مخالف قوتیں ہمارے ملک کو شہریوں کے لئے ” most unsafe country of the world ” قرار دے دیں جو کہ انتہائی شرمناک ترین بات ہوگی بحیثیت پاکستانی ہم سب کے لئے.

Twitter handle
‎@KhalidImranK

Comments are closed.