شہباز اکمل جندران۔۔۔۔
باغی انویسٹی گیشن سیل۔۔۔۔
پنجاب میں ڈیڑھ سو سے زائد اتھارٹیاں،ایجنسیاں،کمیشن اور بورڈ قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔
کھربوں روپے کا سالانہ بجٹ استعمال کرنے والے یہ ڈپینڈنٹ اور نیم خود مختار ادارے سرکاری محکموں کی کارکردگی،موجودگی اور افادیت کے لیے سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔پنجاب میں کمپنیوں اور سپیشل یونٹس سے ہٹ کر ڈیڑھ سو سے زائد اتھارٹیاں،ایجنسیاں،کمیشن اور بورڈ قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے ہیں۔
اصل محکموں کے اختراعی ،ڈپینڈنٹ اور نیم خود مختاریہ ادارے جہاں ہر سال مجموعی طورپر کھربوں روپے کا بجٹ استعمال کرتے ہیں۔وہیں اصل سرکاری محکموں کے وجود ،افادیت اور کارکردگی کے لیے چیلنج اور سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
پنجاب میں فنانس ڈیپارٹمنٹ سے لیکر ، ریونیو، مواصلات وتعمیرات، صحت ، تعلیم، داخلہ،توانائی، کالونیز ، اوقاف ، ہاوسنگ ،انڈسٹریز ،لائیوسٹاک ،قانون ،لیبر ،ثقافت ،لوکل گورنمنٹ ،معدنیات،زراعت، آبپاشی،پی اینڈ ڈی، ایس اینڈ جی اے ڈی ،سوشل ویلفئیر اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر سرکاری محکموں تک ہر ادارے میں اتھارٹیاں ، بورڈ اور کمیشن بنائے گئے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگران سرکاری اداروں کی ذاتی کارکردگی تسلی بخش ہے توفوڈ اتھارٹی ، ریونیو اتھارٹی ،والڈ سٹی اتھارٹی ،سیف سٹی اتھارٹی،ایجوکیشن فاونڈیشن،ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ،ہیلتھ کئیر کمیشن،ہیلتھ فاونڈیشن،میٹرو بس اتھارٹی،سوشل ویلفئیر بورڈ ،پاور ڈویلپمنٹ بورڈ اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز جیسی ڈیڑھ سو سے زائد اتھارٹیاں ، کمیشن اور بورڈ کیوں بنائے گئے ہیں۔اور اگر سرکاری اداروں کی اپنی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے اور ڈیڑھ سو سے زائد اتھارٹیاں،ایجنسیاں،کمیشن اور بورڈ بنانا ناگزیر تھا توقومی خزانے پر بوجھ بننے والے ایسے سفید ہاتھی سرکاری اداروں کو تحلیل کیوں نہیں کیا جاتا