صومالیہ:2 بم دھماکوں کے بعد دہشتگردوں کا ہوٹل پر قبضہ

نامعلوم حملہ آوروں نے صومالی دارالحکومت موگا دیشو میں دھماکوں کے بعد حیات ہوٹل پر قبضہ کر لیا ہے،ہوٹل کو اپنے کنٹرول میں لینے سے پہلے جمعہ کے روز دو کار بم دھماکے کیے گئے اور فائرنگ کی گئی-

باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلح حملہ آوروں نے ہوٹل میں داخل ہونے سے قبل ہوٹل کے باہر دو کار بم دھماکے کیے اور فائرنگ کرتے ہوئے ہوٹل میں داخل ہو گئے –

دوران پروازمسافر طیارے کے پائلٹس 37000 فٹ کی بلندی پر سوگئے

صومالین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی جانب سے بارود سے بھری ہوئی 2 گاڑیوں کے ذریعے پہلے موگادیشو کے ہوٹل حیات کے باہر دھماکے کیے گئے ایک کار بم دھماکہ ہوٹل کے ساتھ قائم بیرئیر پر ہوا اور دوسرا ہوٹل کے گیٹ پر کیا گیا جس کے بعد حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے ہوٹل میں داخل ہوئے اور وہ اب تک ہوٹل کے اندر موجود ہیں۔

ایک پولیس افسر جس کا نام احمد بتایا گیا ہے کہا ‘ہمیں یقین ہے کہ اس وقت دہشت گرد ہوٹل کے اندر موجود ہیں۔ دو انٹیلی جنس افسروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کی مگر اس سارے واقعے کی تصدیق کی ہے۔

جاپان حکومت کی نوجوان نسل سے زیادہ سے زیادہ شراب پینے کی اپیل

دوسری جانب القاعدہ سے منسلک الشباب گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے موقع پر موجود انٹیلی جنس گروپ نے بھی الشباب کے اس بیان کی تصدیق ہے حیات ہوٹل ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کی آمدو رفت کے حوالے سے کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔

جمعہ کے روز ہونے والے کار بم دھماکے نئے صدر حسن شیخ محمود کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کی پہلی بڑی کارروائی ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری الشباب نے قبول کی ہے واقعے میں ہونے والی اموات یا زخمیوں کے بارے میں تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں-

قبل ازیں الشباب کے دہشتگردوں کی جانب سے 2020 میں موگا دیشو ہی کے ایک اور ہوٹل پر حملے کے دوران 16 افراد کو قتل کیا گیا تھا۔

بھارت: ریاست بہار میں نوسربازگروہ جعلی پولیس اسٹیشن چلاتا رہا

جبکہ جولائی 2019 میں بھی جنوبی صومالیہ کے کے ساحلی شہر کسمایو میں پورٹ پر واقع ہوٹل پر خودکش حملے اور فائرنگ سے خاتون صحافی سمیت 26 افراد ہلاک ہوگئےتھے،ایک خودکش بمباربارود سےبھری گاڑی لےکر جاگھسا تھا جبکہ ساتھ ہی مسلح شخص نے عمارت میں اندھا دھند فائرنگ بھی کی تھی-

حملے کے نتیجے میں سابق مقامی وزیر، صومالی نژاد کینیڈین خاتون صحافی اور ان کے شوہر سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھی تب بھی شدت پسند گروپ ’الشباب‘ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

Comments are closed.