دوسروں کی ترقی سے حسد تحریر:جواد_یوسف زئی

0
131

ہمارے ملک میں ایک رونا دھونا یہ رہا ہے کہ سرمایہ دار اس ملک کو کھا گئے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہمیں لوٹ کر دولتمند ہوگئے ہیں۔
سرمایہ دار کون ہوتا ہے؟ ایسا اشخص جس کو کاروباری طریقے آتے ہوں اور وہ تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ جس معاشرے کا مجموعی ڈھانچہ دیانتداری کی بنیاد پر استتوار ہو وہاں کاروبار دینانتداری سے ہوتا ہے لیکن اگر معاشرے میں بد دیانتی کا راج ہو تو کاروبار میں بھی اس کے اثرات اتے ہیں۔ لیکن جو بھی صورت حال ہو، کاروباری شخص معاشرے کا ایک بہت مفید رکن ہوتا ہے اور اس کی برکت سے بے شمار لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ وہ جان مار کر کماتا ہے لیکن کھاتا کم ہے۔ اس کی بچت اس کے اپنے کام کم آتا ہے اور دوسروں کے زیادہ۔
1890 کے لگ بھگ موجودہ انڈیا کے صوبے گجرات میں حبیب اسمٰعیل نام کا ایک خواجہ لڑکا برتنوں کی دکان میں ملازم ہوا اور چند سالوں کے اندر یہ اس کاروبار کا پارٹنر بن گیا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1941 میں اس نے جنیب بنک کی بنیاد رکھی۔ آج اس خاندان کا کاروبار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ سینکڑوں کمپنیوں پر مشتمل کئی گروپ ہیں جو دنیا کا کم و بیش ہر کام کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر کرتے ہیں۔ یہ ملکی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں، لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں اور ان کے فلاحی کاموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ سکولوں کے ایک سلسلے کے علاوہ ایک بہت ہی معیاری یونیورسٹی یہ لوگ چلا رہے ہیں۔
جب پاکستان بن رہا تھا تو قاید اعظم نے اسمٰعیل حیبیب کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ جب ملک قائم ہوا توخزانے میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ اوپر سے انڈیا نے ہمارے حصے کا پیسہ دینے سے انکار کردیا۔ ایسے میں قاید اعظم نے اسمٰعیل حبیب سے پوچھا کہ کیا وہ کچھ رقم مملکت کو قرض دے سکتے ہیں؟ حبیب اسمٰعیل نے خالی چیک پر دستخط کرکے قاید اعطم کے سامنے رکھ دیا جس پر انہوں نے 8 کروڑ روپے نکال کر حکومت کا کام چلا لیا۔
بعد کی حکومتوں نے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہیں کارٹل کہا گیا تو کبھی بائیس خاندان۔ اب ان کا نیا لقب مافیا رکھا گیا ہے۔
ایک زمانے میں ان سب کا کاروبار زبردستی سرکاری قبضے میں لے لیا گیا۔ بیس سال بعد کارخانے کاٹھ کباڑ کا روپ اختیار کر گئے تو کہا گیا کہ واپس خرید لو۔ 90 کی دھائی میں کراچی میں اسی طرح کی ایک آئل ملز خسارے میں جاکر بند ہوگئی تو اس کے سابق مالک سیٹھ ولی محمد کو واپس لینے کی پیشکش کی گئی۔ اس نے جواب دیا کہ "ظالمو! دو سال اور میرے پاس رہنے دیتے تو میں اس کا مین گیٹ سونے کا بنوانے والا تھا۔ اب زنگ خوردہ کباڑ کا کیا کروں گا؟” یہ بات کارخانے کا سرکاری ملازم منیجر بتا رہا تھا۔
ہمارے ملک کے پسماندہ رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی ترقی سے حسد کرتے ہیں۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMJawadKhan@Gmail.com

Leave a reply