ففتھ جنریشن وار اور ہم تحریر : شفقت مسعود عارف
ففتھ جنریشن وار
دراصل hybrid war ہے یعنی مخلوط طریقہ جنگ
جس میں
عسکری
انفارمیشن
ڈس انفارمیشن
مسلسل پروپیگنڈا سے رائے کی تبدیلی
پر تسلسل سے کام کیا جاتا ہے اور عام رائے کو اپنے مقصد کیلئے کسی ریاست کے حق میں یا خلاف ہموار کرنے کیلئے منصوبہ بندی سے کوشش کی جاتی ہے
اس کے کئی حصے ہیں
1۔ مخالف ریاستوں میی کسی حکومت ، ادارے یا کسی عالمی یا مقامی موقف کے حق میں یا خلاف
2۔ اپنی ریاست کے حق میں
3۔ اپنی ہی ریاست میں کسی خاص علاقے، ادارے یا عالمی و مقامی موقف کے حق میں یا خلاف
4۔ عالمی رائے عامہ کو کسی موقف کے حق میں یا خلاف بدلنے کیلئے
5۔ چونکہ اسے وار فیئر کا نام دیا گیا ہے اس لئے ہر ملک کی افواج کے حق میں یا خلاف رائے بدلنے کیلئے بھی یہی وارفیئر مسلسل استعمال کی جاتی ہے
ففتھ جنریشن وار فیئر کا پروپیگنڈا بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے جہاں آپ کے اعصاب کو تناؤ میں رکھ کر متوقع ردعمل کو استعمال کیا جاتا ہے یہ تہہ در تہہ پلاننگ ہے
اسلئے اسے درست طور پر سمجھنا ضروری ہے
قریبا ہر ملک میں کچھ شخصیات ، ادارے اور شعبے مقدس ٹھہرائے جاتے ہیں
جن کے حق میں ملک کے اندر سے اور انکے خلاف باہر سے اس طریقہ جنگ کے تحت پلاننگ کی جاتی ہے
جس کا مثبت اور منفی استعمال یہی شخصیات ، ادارے اور شعبے بھی کرتے ہیں اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر من مانی کرنے کے ساتھ ذاتی ایجنڈے بھی پروموٹ کرتے ہیں
اسلئے میڈیا اور سوشل میڈیا
کیلئے صحیح بات معلوم ہونا ضروری ہے پھر وہ خود فیصلہ کریں کہ کیا بتانا اور کیا چھپانا مناسب ہے
مثبت پروپیگنڈا کے ساتھ ساتھ ڈس انفارمیشن اس طریقہ جنگ کا بڑا ہتھیار ہے
جس سے رائے کیلئے check لگا کر تجزیہ کر کے آئندہ کیلئے پلاننگ کی جاتی ہے
اسے ہم ابھی اگر صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو
پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا لیبل لگانے کیلئے اسے استعمال کیا گیا اور ہم اس کا دفاع خاصے عرصے تک نہ کر سکے
ہمیں عالمی پابندیوں، سیاحت کے نقصان اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں مشکلات کا سامنا رہا بڑے فورمز پر ہمیں کئی دفعہ شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں اب جا کر کسی حد تک تبدیلی آ سکی ہے
لیکن 70 کی دہائی سے اس جنگ کا ایک حصہ اندرون ملک بھی لڑا جارہا ہے جسے عسکری ادارے lead کر رہے ہیں
بطور پاکستانی ہمارے لئے اس جنگ کا درست طریقہ کار کیا ہے
ہماری ترجیحات کی کسوٹی پاکستان کا مفاد ہو
کوئی حکومت
کوئی شخصیت
کوئی ادارہ
اسکی کسوٹی نہ ہو
کوئی حکمران ، کوئی جج کوئی جرنیل کوئی بیوروکریٹ کوئی میڈیا آئیکون کوئی رائٹر جس کا کوئی کام پاکستانی مفاد سے متصادم ہو ہم اسے گرفت کر سکیں
مگر اس سے پہلے بیرونی ممالک کے عالمی فورم پر launched پروپیگنڈا کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی اہلیت بھی ہم پیدا کریں
اور
عالمی اور مقامی سطح پر کوئی پروپیگنڈا لانچ کرتے ہوئے یا کسی پروپیگنڈا کا جواب دیتے ہوئے ہم یہ مدنظر ضرور رکھیں کہ اس کا اثر پاکستان کیلئے کیا ہو گا
اس کیلئے کئی دفعہ ہمیں اپنے الفاظ ، اور کئی دفعہ حقائق بھی دبا کر رکھنا پڑیں گے
ففتھ جنریشن وار
بڑی سطح پر کھیلی جانے والی وہ شطرنج ہے جس میں بعض دفعہ ایک چھوٹی سی چال کسی بڑے معاملے کو سلجھا یا خراب کر سکتی ہے
ففتھ جنریشن وار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ
آپ وہ موقف تسلیم کر کے اس جنگ کا حصہ بنیں جو اس وار فیئر کے ڈیزائنر آپ کو بتاتے ہیں وہ ڈیزائنر غیر ملکی ہوں یا ملکی
اسی وجہ سے چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو اس جنگ میں حق میں یا خلاف ایک ہی مخصوص ایجنڈا پر کام کرتے نظر آئیں گے ایسے میں ہم کس طرح دشمن کا آلہ کار بننے سے بچ سکتے ہیں
جبکہ اداروں کی طرف سے پالیسیز پر مکمل خاموشی کیلئے وجہ سیکیورٹی بتائی جاتی ہے
آج کل کوئی معاملہ انفرادی نہیں ہے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا تعلق مقامی اور عالمی پالیسی ، سسٹم اور براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول سے جڑا ہوا ہے
اسی طرح صرف اس چیز کی وضاحت کیلئے ایک کتاب بھی ناکافی ہے کہ ہم کب کیا اور کس طرح سمجھیں اور ردعمل کا اظہار کریں
مسلسل نظر، درست معلومات، تجزیہ اور سیاق و سباق سے واقفیت ضروری ہے جو سب کو میسر نہیں اور اسی چیز سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے
اسلئے ضروری ہے کہ ہر لیول پر غیر جانبدار تھنک ٹینک اور ڈسکشن بورڈ ہوں جو تازہ ترین صورتحال پر بات کر کے واضح کر سکیں
ڈس انفارمیشن سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں
پہلا موثر ترین طریقہ حکومتی سطح پر ہے لیکن بدقسمتی سے وہ سب سے زیادہ غیر فعال ہیں
دوسرا طریقہ وہ ہے جس میں انفرادی یا چھوٹی جماعتوں اور ٹیموں کی شکل میں انالسز ونگ اور جوابی سٹریٹجی اختیار کرنے کے ہیں لیکن اس معاملے میں اکثر صحیح واقفیت نہ ہونا رکاوٹ ہے درحقیقت اس پر بڑے لیول پر کام کرنے کیلئے میدان قریبا خالی پڑا ہے
بیانیہ کی جنگ میں ہم پاکستانیوں میں صبر اور صحیح تجزیہ کی کمی ہے کیونکہ ہم فوری ردعمل ضروری سمجھتے ہیں
اور درحقیقت یہی وہ چیز ہے جو ففتھ جنریشن وار کے منصوبہ ساز استعمال کرتے ہیں
ہمیں رکنا ، دیکھنا ، سوچنا اور سمجھنا شروع کرنا پڑیگا
"کسی ردعمل سے پہلے”
Twitter handle
@ShafqatChMm